سایہ پر اشعار
سایہ شاعری ہی کیا عام
زندگی میں بھی سکون اور راحت کی ایک علامت ہے ۔ جس میں جاکر آدمی دھوپ کی شدت سے بچتا ہے اور سکون کی سانسیں لیتا ہے ۔ البتہ شاعری میں سایہ اور دھوپ کی شدت زندگی کی کثیر صورتوں کیلئے ایک علامت کے طور پر برتی گئی ہے ۔ یہاں سایہ صرف دیوار یا کسی پیڑ کا ہی سایہ نہیں رہتا بلکہ اس کی صورتیں بہت متنوع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح دھوپ صرف سورج ہی کی نہیں بلکہ زندگی کی تمام ترتکلیف دہ اور منفی صورتوں کا استعارہ بن جاتی ہے ۔
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
کوئی تصویر مکمل نہیں ہونے پاتی
دھوپ دیتے ہیں تو سایا نہیں رہنے دیتے
-
موضوعات : تصویراور 1 مزید
کب دھوپ چلی شام ڈھلی کس کو خبر ہے
اک عمر سے میں اپنے ہی سائے میں کھڑا ہوں
-
موضوعات : دھوپاور 1 مزید
دھوپ سائے کی طرح پھیل گئی
ان درختوں کی دعا لینے سے
لوگ کہتے ہیں کہ سایا ترے پیکر کا نہیں
میں تو کہتا ہوں زمانے پہ ہے سایا تیرا
آسماں ایک سلگتا ہوا صحرا ہے جہاں
ڈھونڈھتا پھرتا ہے خود اپنا ہی سایا سورج
-
موضوع : آسمان
ذرا یہ دھوپ ڈھل جائے تو ان کا حال پوچھیں گے
یہاں کچھ سائے اپنے آپ کو پیکر بتاتے ہیں
-
موضوع : دھوپ
وہ مرے ساتھ ہے سائے کی طرح
دل کی ضد ہے کہ نظر بھی آئے
-
موضوع : دل
روشنی میں اپنی شخصیت پہ جب بھی سوچنا
اپنے قد کو اپنے سائے سے بھی کم تر دیکھنا
-
موضوع : روشنی
مرے سائے میں اس کا نقش پا ہے
بڑا احسان مجھ پر دھوپ کا ہے
-
موضوع : دھوپ
اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے
چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے
-
موضوع : دھوپ
دھوپ بولی کہ میں آبائی وطن ہوں تیرا
میں نے پھر سایۂ دیوار کو زحمت نہیں دی
-
موضوع : دھوپ
تجھ سے جدا ہوئے تو یہ ہو جائیں گے جدا
باقی کہاں رہیں گے یہ سائے ترے بغیر
یاروں نے میری راہ میں دیوار کھینچ کر
مشہور کر دیا کہ مجھے سایہ چاہئے
دھوپ بڑھتے ہی جدا ہو جائے گا
سایۂ دیوار بھی دیوار سے
-
موضوع : دھوپ
ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھا
سر کشیدہ مرا سایا صف اشجار کے بیچ
زندگی دھوپ میں آنے سے کھلی
سایہ دیوار اٹھانے سے کھلا
-
موضوع : زندگی
ہم ایک فکر کے پیکر ہیں اک خیال کے پھول
ترا وجود نہیں ہے تو میرا سایا نہیں
-
موضوع : وجود
دھوپ جوانی کا یارانہ اپنی جگہ
تھک جاتا ہے جسم تو سایہ مانگتا ہے
وہ اور ہوں گے جو کار ہوس پہ زندہ ہیں
میں اس کی دھوپ سے سایہ بدل کے آیا ہوں
-
موضوع : دھوپ
تاریکیوں نے خود کو ملایا ہے دھوپ میں
سایہ جو شام کا نظر آیا ہے دھوپ میں
-
موضوعات : دھوپاور 1 مزید
سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا اب تو اے اثرؔ
پھر کس لیے میں آج کو کل سے جدا کروں
زاویہ دھوپ نے کچھ ایسا بنایا ہے کہ ہم
سائے کو جسم کی جنبش سے جدا دیکھتے ہیں
-
موضوع : دھوپ
رشتے ناطے ٹوٹے پھوٹے لگے ہیں
جب بھی اپنا سایہ ساتھ نہیں ہوتا
وہ تپش ہے کہ جل اٹھے سائے
دھوپ رکھی تھی سائبان میں کیا
-
موضوع : دھوپ
سبھی انساں فرشتے ہو گئے ہیں
کسی دیوار میں سایہ نہیں ہے
ہم ترے سائے میں کچھ دیر ٹھہرتے کیسے
ہم کو جب دھوپ سے وحشت نہیں کرنی آئی
-
موضوعات : دھوپاور 1 مزید
کسی کی راہ میں آنے کی یہ بھی صورت ہے
کہ سایہ کے لیے دیوار ہو لیا جائے
قدم قدم کوئی سایہ سا متصل تو رہے
سراب کا یہ سر سلسلہ دراز تو ہو
وہ وحشی اس قدر بھڑکا ہے صورت سے مرے یارو
کہ اپنے دیکھ سائے کو مجھے ہم راہ جانے ہے