وجود پر اشعار
وجود کے عنوان کے تحت
منتخب کئے گئے اشعار انسانی وجود کی اہمیت اور پوری کائنات کے سیاق میں اس کی معنویت کو واضح کرتے ہیں ، ساتھ ہی یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس کی اس اہمیت اور معنویت کے حوالے سے اس کے تقاضے کیا ہیں اور نظام کائنات میں اس کی کارکردگی کی کیا کیا صورتیں ہیں ۔ اس شاعری کا ایک پہلو انسانی وجود کی داخلی دنیا کی سیر بھی ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب آپ کو پسند آئے گا کیونکہ یہ ایک عمومی سطح پر ہم سب کے وجودی مسائل کا بیانیہ ہے ۔
خاک ہوں لیکن سراپا نور ہے میرا وجود
اس زمیں پر چاند سورج کا نمائندہ ہوں میں
یہ جو میں ہوں ذرا سا باقی ہوں
وہ جو تم تھے وہ مر گئے مجھ میں
ختم ہونے دے مرے ساتھ ہی اپنا بھی وجود
تو بھی اک نقش خرابے کا ہے مر جا مجھ میں
مرا وجود مری روح کو پکارتا ہے
تری طرف بھی چلوں تو ٹھہر ٹھہر جاؤں
ہم ایک فکر کے پیکر ہیں اک خیال کے پھول
ترا وجود نہیں ہے تو میرا سایا نہیں
-
موضوع : سایہ
کبھی محبت سے باز رہنے کا دھیان آئے تو سوچتا ہوں
یہ زہر اتنے دنوں سے میرے وجود میں کیسے پل رہا ہے
-
موضوع : محبت
اگر ہے انسان کا مقدر خود اپنی مٹی کا رزق ہونا
تو پھر زمیں پر یہ آسماں کا وجود کس قہر کے لیے ہے
-
موضوع : آسمان
ہمیں تو اس لیے جائے نماز چاہئے ہے
کہ ہم وجود سے باہر قیام کرتے ہیں
ترا وجود گواہی ہے میرے ہونے کی
میں اپنی ذات سے انکار کس طرح کرتا
اب کوئی ڈھونڈ ڈھانڈ کے لاؤ نیا وجود
انسان تو بلندی انساں سے گھٹ گیا
مرے وجود کو پرچھائیوں نے توڑ دیا
میں اک حصار تھا تنہائیوں نے توڑ دیا
-
موضوع : تنہائی
مجھے شک ہے ہونے نہ ہونے پہ خالدؔ
اگر ہوں تو اپنا پتا چاہتا ہوں
ادا ہوا نہ قرض اور وجود ختم ہو گیا
میں زندگی کا دیتے دیتے سود ختم ہو گیا
-
موضوع : زندگی
میں بھی یہاں ہوں اس کی شہادت میں کس کو لاؤں
مشکل یہ ہے کہ آپ ہوں اپنی نظیر میں
-
موضوع : فلسفہ
رات دن گردش میں ہیں لیکن پڑا رہتا ہوں میں
کام کیا میرا یہاں ہے سوچتا رہتا ہوں میں
ستارۂ خواب سے بھی بڑھ کر یہ کون بے مہر ہے کہ جس نے
چراغ اور آئنے کو اپنے وجود کا راز داں کیا ہے
-
موضوعات : آئینہاور 1 مزید
مرا وجود حقیقت مرا عدم دھوکا
فنا کی شکل میں سرچشمۂ بقا ہوں میں
-
موضوع : فریب