Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

وحشت پر اشعار

وحشت پر یہ شاعری آپ

کے لئے عاشق کی شخصیت کے ایک دلچسپ پہلو کا حیران کن بیان ثابت ہوگی ۔ آپ دیکھیں گے کہ عاشق جنون اور دیوانگی کی آخری حد پر پہنچ کر کیا کرتا ہے ۔ اور کس طرح وہ وحشت کرنے کے لئے صحراؤں میں نکل پڑتا ہے ۔

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے

کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے

شہریار

ہم ترے سائے میں کچھ دیر ٹھہرتے کیسے

ہم کو جب دھوپ سے وحشت نہیں کرنی آئی

عابدہ کرامت

ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے

گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر

عادل منصوری

دیار نور میں تیرہ شبوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جو مری وحشتوں کا ساتھی ہو

افتخار عارف

میرے ماتھے پہ ابھر آتے تھے وحشت کے نقوش

میری مٹی کسی صحرا سے اٹھائی گئی تھی

قمر عباس قمر

نہ ہم وحشت میں اپنے گھر سے نکلے

نہ صحرا اپنی ویرانی سے نکلا

کاشف حسین غائر

ان دنوں اپنی بھی وحشت کا عجب عالم ہے

گھر میں ہم دشت و بیابان اٹھا لائے ہیں

شاہد کمال

وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا

سیکڑوں کوس نہیں صورت انساں پیدا

حیدر علی آتش

مجھے بچا لے مرے یار سوز امشب سے

کہ اک ستارۂ وحشت جبیں سے گزرے گا

قمر عباس قمر

بستی بستی پربت پربت وحشت کی ہے دھوپ ضیاؔ

چاروں جانب ویرانی ہے دل کا اک ویرانہ کیا

احمد ضیا

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی

میری وحشت تری شہرت ہی سہی

مرزا غالب

وحشتیں عشق اور مجبوری

کیا کسی خاص امتحان میں ہوں

خورشید ربانی

مجنوں سے یہ کہنا کہ مرے شہر میں آ جائے

وحشت کے لیے ایک بیابان ابھی ہے

قمر عباس قمر

کچھ بے ٹھکانہ کرتی رہیں ہجرتیں مدام

کچھ میری وحشتوں نے مجھے در بدر کیا

صابر ظفر

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف

جسم تھکتا نہیں چلنے سے کہ وحشت کا سفر

خواب میں نقل مکانی کی طرح ہوتا ہے

فیصل عجمی

ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی

برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی

ناصر کاظمی

لوگ کہتے ہیں کہ تم سے ہی محبت ہے مجھے

تم جو کہتے ہو کہ وحشت ہے تو وحشت ہوگی

عبد الحمید عدم

وحشت کا یہ عالم کہ پس چاک گریباں

رنجش ہے بہاروں سے الجھتے ہیں خزاں سے

جاوید صبا

شادؔ اتنی بڑھ گئی ہیں میرے دل کی وحشتیں

اب جنوں میں دشت اور گھر ایک جیسے ہو گئے

خوشبیر سنگھ شادؔ

ہو سکے کیا اپنی وحشت کا علاج

میرے کوچے میں بھی صحرا چاہئے

داغؔ دہلوی

وحشتیں کچھ اس طرح اپنا مقدر بن گئیں

ہم جہاں پہنچے ہمارے ساتھ ویرانے گئے

خاطر غزنوی

اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے

دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے

ابن انشا

اندھیرے کمرے میں رقص کرتی رہے گی وحشت

اور ایک کونے میں پارسائی پڑی رہے گی

کومل جوئیہ

پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے

باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے

اعتبار ساجد

فصل گل آتے ہی وحشت ہو گئی

پھر وہی اپنی طبیعت ہو گئی

لالہ مادھو رام جوہر

سودائے عشق اور ہے وحشت کچھ اور شے

مجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا

بیخود دہلوی

وہ کام رہ کے کرنا پڑا شہر میں ہمیں

مجنوں کو جس کے واسطے ویرانہ چاہیے

امیر امام

وائے قسمت سبب اس کا بھی یہ وحشت ٹھہری

در و دیوار میں رہ کر بھی میں بے گھر نکلا

عدیل زیدی

عشق پر فائز ہوں اوروں کی طرح لیکن مجھے

وصل کا لپکا نہیں ہے ہجر سے وحشت نہیں

غلام حسین ساجد

اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے

کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے

کاشف حسین غائر

وہ جو اک شرط تھی وحشت کی اٹھا دی گئی کیا

میری بستی کسی صحرا میں بسا دی گئی کیا

عرفان صدیقی

وہ جس کے نام کی نسبت سے روشنی تھا وجود

کھٹک رہا ہے وہی آفتاب آنکھوں میں

افتخار عارف

بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی

وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے

عبد الاحد ساز

یہ کھچا کھچ بھری ہوئی وحشت

بے بسوں کو بسوں سے خوف آیا

عمران شمشاد نرمی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے