Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

امن پر اشعار

شاعری کا ایک اہم ترین

کام یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ بہت خاموشی سے ہمیں ایک بہتر انسان بننے کی راہ پر لگا دیتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے ہم زندگی میں ہر طرح کی منفیت کو نکارنے لگتے ہیں۔ امن کے اس عنوان سے ہم آپ کے لیے کچھ ایسی ہی شاعری پیش کر رہے ہیں جو آپ کو ہر قسم کے خطرناک انسانی جذبات کی گرفت سے بچانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ شاعری ہم سب کے لیےبہتر انسان بننے اور اپنی انا کو ختم کرنے کا ایک سبق بھی ہے اور دنیا میں امن و شانتی قائم کرنے کی کوشش میں لگے لوگوں کے لیے ایک چھوٹی سی گائڈ بک بھی۔ آپ اسے پڑھیے اور اس میں موجود پیغام کو عام کیجیے۔

دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے

جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں

بشیر بدر

اگر تمہاری انا ہی کا ہے سوال تو پھر

چلو میں ہاتھ بڑھاتا ہوں دوستی کے لیے

احمد فراز

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

جگر مراد آبادی

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

ساحر لدھیانوی

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں

آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت

بشیر بدر

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے

جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی

ساحر لدھیانوی

حفیظؔ اپنی بولی محبت کی بولی

نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی

حفیظ جالندھری

سب سے پر امن واقعہ یہ ہے

آدمی آدمی کو بھول گیا

جون ایلیا

سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا

اجالا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا

حفیظ بنارسی

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

ظفر زیدی

مجھ میں تھوڑی سی جگہ بھی نہیں نفرت کے لیے

میں تو ہر وقت محبت سے بھرا رہتا ہوں

مرزا اطہر ضیا

عجیب درد کا رشتہ ہے ساری دنیا میں

کہیں ہو جلتا مکاں اپنا گھر لگے ہے مجھے

ملک زادہ منظور احمد

یہ دنیا نفرتوں کے آخری اسٹیج پہ ہے

علاج اس کا محبت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے

چرن سنگھ بشر

پرواز میں تھا امن کا معصوم پرندہ

سنتے ہیں کہ بے چارہ شجر تک نہیں پہنچا

کرامت بخاری

ایک تختی امن کے پیغام کی

ٹانگ دیجے اونچے میناروں کے بیچ

عزیز نبیل

امن تھا پیار تھا محبت تھا

رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق

حبیب جالب

جنگ کا شور بھی کچھ دیر تو تھم سکتا ہے

پھر سے اک امن کی افواہ اڑا دی جائے

شاہد کمال

رہے تذکرے امن کے آشتی کے

مگر بستیوں پر برستے رہے بم

انور شعور

سنا ہے امن پرستوں کا وہ علاقہ ہے

وہیں شکار کبوتر ہوا تو کیسے ہوا

فراغ روہوی

امن ہر شخص کی ضرورت ہے

اس لئے امن سے محبت ہے

نامعلوم

فضا یہ امن و اماں کی سدا رکھیں قائم

سنو یہ فرض تمہارا بھی ہے ہمارا بھی

نصرت مہدی

کتنا پر امن ہے ماحول فسادات کے بعد

شام کے وقت نکلتا نہیں باہر کوئی

عشرت دھولپور

امن کا قتل ہو گیا جب سے

شہر اب بد حواس رہتا ہے

صابر شاہ صابر

شہر میں امن و اماں ہو یہ ضروری ہے مگر

حاکم وقت کے ماتھے پہ لکھا ہی کچھ ہے

شمیم قاسمی

مل کے سب امن و چین سے رہئے

لعنتیں بھیجئے فسادوں پر

ہیرا لال فلک دہلوی

خدائے امن جو کہتا ہے خود کو

زمیں پر خود ہی مقتل لکھ رہا ہے

ظفر صہبائی

امن کیفیؔ ہو نہیں سکتا کبھی

جب تلک ظلم و ستم موجود ہے

اقبال کیفی

امن کے سارے سپنے جھوٹے

سپنوں کی تعبیریں جھوٹی

بقا بلوچ

امن اور آشتی سے اس کو کیا

اس کا مقصد تو انتشار میں ہے

عزیز انصاری

ہاں دل بے تاب چندے انتظار

امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے

اسماعیل میرٹھی

امن عالم کی خاطر

جنگ یگوں سے جاری ہے

اسلم حبیب

اپنے دیش میں گھر گھر امن ہے کہ جھگڑے ہیں

دیکھو روز ناموں کی سرخیاں بتائیں گی

بسمل نقشبندی

چلو امن و اماں ہے میکدے میں

وہیں کچھ پل ٹھہر کر دیکھتے ہیں

اختر شاہجہانپوری

بہ نام امن و اماں کون مارا جائے گا

نہ جانے آج یہاں کون مارا جائے گا

نسیم سحر

بادلوں نے آج برسایا لہو

امن کا ہر فاختہ رونے لگا

ظفر حمیدی

معصوم ہے معصوم بہت امن کی دیوی

قبضہ میں لیے خنجر خوں خار ابھی تک

عارف نقشبندی

دھوپ کے سائے میں چپ سادھے ہوئے

کر رہے ہو امن کا اعلان کیا

عادل حیات

امن اور تیرے عہد میں ظالم

کس طرح خاک رہ گزر بیٹھے

قلق میرٹھی

امن پرچار تلک ٹھیک سہی لیکن امن

تم کو لگتا ہے کہ ہوگا نہیں ہونے والا

فصیح اللہ نقیب

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے