تمام
تعارف
غزل68
نظم29
شعر79
ای-کتاب108
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 8
آڈیو 7
ویڈیو 21
قطعہ20
قصہ3
بچوں کی کہانی2
حفیظ جالندھری
غزل 68
نظم 29
اشعار 79
ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا
کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہم ہی میں تھی نہ کوئی بات یاد نہ تم کو آ سکے
تم نے ہمیں بھلا دیا ہم نہ تمہیں بھلا سکے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قطعہ 20
قصہ 3
بچوں کی کہانی 2
کتاب 108
تصویری شاعری 8
کوئی چارہ نہیں دعا کے سوا کوئی سنتا نہیں خدا کے سوا مجھ سے کیا ہو سکا وفا کے سوا مجھ کو ملتا بھی کیا سزا کے سوا برسر_ساحل مراد یہاں کوئی ابھرا ہے ناخدا کے سوا کوئی بھی تو دکھاؤ منزل پر جس کو دیکھا ہو رہ_نما کے سوا دل سبھی کچھ زبان پر لایا اک فقط عرض_مدعا کے سوا کوئی راضی نہ رہ سکا مجھ سے میرے اللہ تری رضا کے سوا بت_کدے سے چلے ہو کعبے کو کیا ملے_گا تمہیں خدا کے سوا دوستوں کے یہ مخلصانہ تیر کچھ نہیں میری ہی خطا کے سوا مہر و مہ سے بلند ہو کر بھی نظر آیا نہ کچھ خلا کے سوا اے حفیظؔ آہ آہ پر آخر کیا کہیں دوست واہ وا کے سوا
دوستی کا چلن رہا ہی نہیں اب زمانے کی وہ ہوا ہی نہیں سچ تو یہ ہے صنم_کدے والو دل خدا نے تمہیں دیا ہی نہیں پلٹ آنے سے ہو گیا ثابت نامہ_بر تو وہاں گیا ہی نہیں حال یہ ہے کہ ہم غریبوں کا حال تم نے کبھی سنا ہی نہیں کیا چلے زور دشت_وحشت کا ہم نے دامن کبھی سیا ہی نہیں غیر بھی ایک دن مریں_گے ضرور ان کے حصے میں کیا قضا ہی نہیں اس کی صورت کو دیکھتا ہوں میں میری سیرت وہ دیکھتا ہی نہیں عشق میرا ہے شہر میں مشہور اور تم نے ابھی سنا ہی نہیں قصۂ_قیس سن کے فرمایا جھوٹ کی کوئی انتہا ہی نہیں واسطہ کس کا دیں حفیظؔ ان کو ان بتوں کا کوئی خدا ہی نہیں