Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انقلاب پر اشعار

شعروادب کی سماجی جڑیں

بہت گہری ہیں ۔ شاعری کتنی بھی تجریدی اورتخیلاتی ہوجائے اس کاسماجی سروکار برقرار رہتا ہے ، ساتھ ہی شاعری کا ایک رخ سماج اوراس کے معاملات سے براہ راست مخاطبے کا بھی ہوتا ہے اوریہیں سے شاعری انقلاب کے راستے کی ایک توانا آواز بن کرابھرتی ہے ۔ سماجی تاریخ کے تمام بڑے انقلابوں اورتبدیلیوں میں تخلیق کاروں نے بنیادی رول ادا کیا ہے ۔ ان کے تخلیق کئے ہوئے فن پاروں نے ظلم اور ناانصافی کے خلاف ایک داخلی بیداری کو پیدا کیا ۔ ہمارا یہ انتخاب انقلاب کو موضوع بنانے والی شاعری کا ایک چھوٹاسا نمونہ ہے ، اسے پڑھئے اورایک نئے جوش ، جذبے اور ولولے کو محسوس کیجئے ۔

ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف

گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی

ساحر لدھیانوی

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

فیض احمد فیض

کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے

ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے

حسن نعیم

میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی

ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے

دشینت کمار

کوئی تو سود چکائے کوئی تو ذمہ لے

اس انقلاب کا جو آج تک ادھار سا ہے

کیفی اعظمی

رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب

چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں

قابل اجمیری

دنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل

جس شخص نے حالات کا رخ موڑ دیا ہو

نامعلوم

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے

خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

ساحر لدھیانوی

دیکھ رفتار انقلاب فراقؔ

کتنی آہستہ اور کتنی تیز

فراق گورکھپوری

انقلاب آئے گا رفتار سے مایوس نہ ہو

بہت آہستہ نہیں ہے جو بہت تیز نہیں

علی سردار جعفری

کام ہے میرا تغیر نام ہے میرا شباب

میرا نعرہ انقلاب و انقلاب و انقلاب

جوش ملیح آبادی

ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

مجروح سلطانپوری

یہ کہہ رہی ہے اشاروں میں گردش گردوں

کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے

احمق پھپھوندوی

انقلاب صبح کی کچھ کم نہیں یہ بھی دلیل

پتھروں کو دے رہے ہیں آئنے کھل کر جواب

حنیف ساجد

بہت برباد ہیں لیکن صدائے انقلاب آئے

وہیں سے وہ پکار اٹھے گا جو ذرہ جہاں ہوگا

علی سردار جعفری

انقلابوں کی گھڑی ہے

ہر نہیں ہاں سے بڑی ہے

جاں نثار اختر

اے انقلاب نو تری رفتار دیکھ کر

خود ہم بھی سوچتے ہیں کہ اب تک کہاں رہے

شوکت پردیسی

انقلابات دہر کی بنیاد

حق جو حق دار تک نہیں پہنچا

ساحر لدھیانوی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے