Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

شجر پر اشعار

برسوں سے اس میں پھل نہیں آئے تو کیا ہوا

سایہ تو اب بھی صحن کے کہنہ شجر میں ہے

اختر بستوی

لگایا محبت کا جب یاں شجر

شجر لگ گیا اور ثمر جل گیا

میر حسن

بچھڑ کے تجھ سے نہ دیکھا گیا کسی کا ملاپ

اڑا دیئے ہیں پرندے شجر پہ بیٹھے ہوئے

عدیم ہاشمی

بھلے ہی چھاؤں نہ دے آسرا تو دیتا ہے

یہ آرزو کا شجر ہے خزاں رسیدہ سہی

غالب ایاز

اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں

انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے

عنبرین حسیب عنبر

جل کر گرا ہوں سوکھے شجر سے اڑا نہیں

میں نے وہی کیا جو تقاضا وفا کا تھا

اکبر حمیدی

وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی

اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا

افتخار عارف

شجر نے پوچھا کہ تجھ میں یہ کس کی خوشبو ہے

ہوائے شام الم نے کہا اداسی کی

رحمان فارس

یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے

سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے

شہریار

تم لگاتے چلو اشجار جدھر سے گزرو

اس کے سائے میں جو بیٹھے گا دعا ہی دے گا

نامعلوم

اس شجر کے سائے میں بیٹھا ہوں میں

جس کی شاخوں پر کوئی پتا نہیں

علی احمد جلیلی

میرے اشجار عزادار ہوئے جاتے ہیں

گاؤں کے گاؤں جو بازار ہوئے جاتے ہیں

احمد عرفان

کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے

چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

پروین شاکر

عجیب درد کا رشتہ تھا سب کے سب روئے

شجر گرا تو پرندے تمام شب روئے

طارق نعیم

عرشؔ بہاروں میں بھی آیا ایک نظارہ پت جھڑ کا

سبز شجر کے سبز تنے پر اک سوکھی سی ڈالی تھی

وجے شرما

تھکن بہت تھی مگر سایۂ شجر میں جمالؔ

میں بیٹھتا تو مرا ہم سفر چلا جاتا

جمال احسانی

چلے جو دھوپ میں منزل تھی ان کی

ہمیں تو کھا گیا سایہ شجر کا

عمر انصاری

ہر شخص پر کیا نہ کرو اتنا اعتماد

ہر سایہ دار شے کو شجر مت کہا کرو

مظفر وارثی

مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے

بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے

فاطمہ حسن

میں اک شجر کی طرح رہگزر میں ٹھہرا ہوں

تھکن اتار کے تو کس طرف روانہ ہوا

نصیر ترابی

پرندے لڑ ہی پڑے جائیداد پر آخر

شجر پہ لکھا ہوا ہے شجر برائے فروخت

افضل خان

آ مجھے چھو کے ہرا رنگ بچھا دے مجھ پر

میں بھی اک شاخ سی رکھتا ہوں شجر کرنے کو

فرحت احساس

غموں سے بیر تھا سو ہم نے خود کشی کر لی

شجر گرا کے پرندوں سے انتقام لیا

بال موہن پانڈے

اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے

جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایا جائے

ظفر زیدی

پرانے عہد کے قصے سناتا رہتا ہے

بچا ہوا ہے جو بوڑھا شجر ہماری طرف

طاہر فراز

سفر ہو شاہ کا یا قافلہ فقیروں کا

شجر مزاج سمجھتے ہیں راہگیروں کا

اتل اجنبی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے