Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ghulam Mohammad Qasir's Photo'

غلام محمد قاصر

1941 - 1999 | ڈیرہ اسمٰعیل خان, پاکستان

پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر

پاکستان کے مقبول اور ممتاز شاعر

غلام محمد قاصر کے اشعار

18.2K
Favorite

باعتبار

محبت کی گواہی اپنے ہونے کی خبر لے جا

جدھر وہ شخص رہتا ہے مجھے اے دل! ادھر لے جا

ہجر کے تپتے موسم میں بھی دل ان سے وابستہ ہے

اب تک یاد کا پتا پتا ڈالی سے پیوستہ ہے

تری آواز کو اس شہر کی لہریں ترستی ہیں

غلط نمبر ملاتا ہوں تو پہروں بات ہوتی ہے

کتاب آرزو کے گم شدہ کچھ باب رکھے ہیں

ترے تکیے کے نیچے بھی ہمارے خواب رکھے ہیں

نام لکھ لکھ کے ترا پھول بنانے والا

آج پھر شبنمیں آنکھوں سے ورق دھوتا ہے

اسی کی شکل مجھے چاند میں نظر آئے

وہ ماہ رخ جو لب بام بھی نہیں آتا

پہلے اک شخص میری ذات بنا

اور پھر پوری کائنات بنا

یہ حادثہ ہے کہ ناراض ہو گیا سورج

میں رو رہا تھا لپٹ کر خود اپنے سائے سے

ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر

گزرتا نہیں اک دسمبر اکیلے

زمانوں کو اڑانیں برق کو رفتار دیتا تھا

مگر مجھ سے کہا ٹھہرے ہوئے شام و سحر لے جا

اس طرح قحط ہوا کی زد میں ہے میرا وجود

آندھیاں پہچان لیتی ہیں بہ آسانی مجھے

جن کی درد بھری باتوں سے ایک زمانہ رام ہوا

قاصرؔ ایسے فن کاروں کی قسمت میں بن باس رہا

ہر سال بہار سے پہلے میں پانی پر پھول بناتا ہوں

پھر چاروں موسم لکھ جاتے ہیں نام تمہارا آنکھوں میں

امید کی سوکھتی شاخوں سے سارے پتے جھڑ جائیں گے

اس خوف سے اپنی تصویریں ہم سال بہ سال بناتے ہیں

پیار گیا تو کیسے ملتے رنگ سے رنگ اور خواب سے خواب

ایک مکمل گھر کے اندر ہر تصویر ادھوری تھی

شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے

اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے

کروں گا کیا جو محبت میں ہو گیا ناکام

مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا

ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں

اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو

جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک

میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے

میں گن رہا تھا شعاعوں کے بے کفن لاشے

اتر رہی تھی شب غم شفق کے زینے سے

بے کار گیا بن میں سونا مرا صدیوں کا

اس شہر میں تو اب تک سکہ بھی نہیں بدلا

یہ بھی اک رنگ ہے شاید مری محرومی کا

کوئی ہنس دے تو محبت کا گماں ہوتا ہے

آیا ہے اک راہ نما کے استقبال کو اک بچہ

پیٹ ہے خالی آنکھ میں حسرت ہاتھوں میں گلدستہ ہے

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے

آ کہ ہر بات بھلا دی ہم نے

کشتی بھی نہیں بدلی دریا بھی نہیں بدلا

اور ڈوبنے والوں کا جذبہ بھی نہیں بدلا

ہم تو وہاں پہنچ نہیں سکتے تمام عمر

آنکھوں نے اتنی دور ٹھکانے بنائے ہیں

ہزاروں اس میں رہنے کے لیے آئے

مکاں میں نے تصور میں بنایا تھا

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

پیاس کی سلطنت نہیں مٹتی

لاکھ دجلے بنا فرات بنا

گلیوں کی اداسی پوچھتی ہے گھر کا سناٹا کہتا ہے

اس شہر کا ہر رہنے والا کیوں دوسرے شہر میں رہتا ہے

وہ لوگ مطمئن ہیں کہ پتھر ہیں ان کے پاس

ہم خوش کہ ہم نے آئینہ خانے بنائے ہیں

کوئی منہ پھیر لیتا ہے تو قاصرؔ اب شکایت کیا

تجھے کس نے کہا تھا آئنے کو توڑ کر لے جا

تم یوں ہی ناراض ہوئے ہو ورنہ مے خانے کا پتا

ہم نے ہر اس شخص سے پوچھا جس کے نین نشیلے تھے

سب سے اچھا کہہ کے اس نے مجھ کو رخصت کر دیا

جب یہاں آیا تو پھر سب سے برا بھی میں ہی تھا

بیاباں دور تک میں نے سجایا تھا

مگر وہ شہر کے رستے سے آیا تھا

ہم نے تمہارے غم کو حقیقت بنا دیا

تم نے ہمارے غم کے فسانے بنائے ہیں

میں بدن کو درد کے ملبوس پہناتا رہا

روح تک پھیلی ہوئی ملتی ہے عریانی مجھے

بغیر اس کے اب آرام بھی نہیں آتا

وہ شخص جس کا مجھے نام بھی نہیں آتا

گلابوں کے نشیمن سے مرے محبوب کے سر تک

سفر لمبا تھا خوشبو کا مگر آ ہی گئی گھر تک

وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں

تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ

سوچا ہے تمہاری آنکھوں سے اب میں ان کو ملوا ہی دوں

کچھ خواب جو ڈھونڈتے پھرتے ہیں جینے کا سہارا آنکھوں میں

خوشبو گرفت عکس میں لایا اور اس کے بعد

میں دیکھتا رہا تری تصویر تھک گئی

ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا

دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو

یوں ہی آساں نہیں ہے نور میں تحلیل ہو جانا

وہ ساتوں رنگ قاصرؔ ایک پیراہن میں رکھتا ہے

سایوں کی زد میں آ گئیں ساری غلام گردشیں

اب تو کنیز کے لیے راہ فرار بھی نہیں

کہتے ہیں ان شاخوں پر پھل پھول بھی آتے تھے

اب تو پتے جھڑتے ہیں یا پتھر گرتے ہیں

دن اندھیروں کی طلب میں گزرا

رات کو شمع جلا دی ہم نے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے