بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
ہر پتا نا آسودہ ہے ماحول چمن آلودہ ہے
رہ جائیں لرزتی شاخوں پر دو چار گلاب تو اچھا ہو
یوں شور کا دریا بپھرا ہے چڑیوں نے چہکنا چھوڑ دیا
خطرے کے نشان سے نیچے اب اترے سیلاب تو اچھا ہو
ہر سال کی آخری شاموں میں دو چار ورق اڑ جاتے ہیں
اب اور نہ بکھرے رشتوں کی بوسیدہ کتاب تو اچھا ہو
ہر بچہ آنکھیں کھولتے ہی کرتا ہے سوال محبت کا
دنیا کے کسی گوشے سے اسے مل جائے جواب تو اچھا ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.