Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لَو پر اشعار

عشق اور عشق کے جذبے

پر یہ شاعری آپ کے لیے ایک سبق کی طرح ہے، آپ اس سے محبت میں جینے کے آداب بھی سیکھیں گے اور ہجر و وصال کو گزارنے کے طریقے بھی۔ یہ پہلا ایسا خوبصورت مجموعہ ہے جس میں محبت کے ہر رنگ، ہر کیفیت اور ہر احساس کو قید کرنے والے اشعار کو اکٹھا کر دیا گیا ہے۔ آپ انہیں پڑھیے اور عشق کرنے والوں کے درمیان شئیر کیجیے۔

دل تھام کے کروٹ پہ لئے جاؤں ہوں کروٹ

وہ آگ لگی ہے کہ بجھائے نہ بنے ہے

کلیم عاجز

ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم

کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

احمد فراز

آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے

آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے

گلزار

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

احمد فراز

جب تم سے محبت کی ہم نے تب جا کے کہیں یہ راز کھلا

مرنے کا سلیقہ آتے ہی جینے کا شعور آ جاتا ہے

ساحر لدھیانوی

محبت میں یہ کیا مقام آ رہے ہیں

کہ منزل پہ ہیں اور چلے جا رہے ہیں

جگر مراد آبادی

دل پہ آئے ہوئے الزام سے پہچانتے ہیں

لوگ اب مجھ کو ترے نام سے پہچانتے ہیں

قتیل شفائی

کسی سبب سے اگر بولتا نہیں ہوں میں

تو یوں نہیں کہ تجھے سوچتا نہیں ہوں میں

افتخار مغل

بس ایک ہی بلا ہے محبت کہیں جسے

وہ پانیوں میں آگ لگاتی ہے آج بھی

اجیت سنگھ حسرت

علاج اپنا کراتے پھر رہے ہو جانے کس کس سے

محبت کر کے دیکھو نا محبت کیوں نہیں کرتے

فرحت احساس

ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے

عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے

ندا فاضلی

عشق نازک مزاج ہے بے حد

عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا

اکبر الہ آبادی

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے

اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی

ابتدا وہ تھی کہ جینے کے لیے مرتا تھا میں

انتہا یہ ہے کہ مرنے کی بھی حسرت نہ رہی

ماہر القادری

تیرا ملنا خوشی کی بات سہی

تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں

ساحر لدھیانوی

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

عرفان صدیقی

عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالبؔ

کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے

مرزا غالب

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

پروین شاکر

اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود

محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی

ناصر کاظمی

گرمیٔ حسرت ناکام سے جل جاتے ہیں

ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں

قتیل شفائی

جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے

سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے

حکیم ناصر

اب تو ملیے بس لڑائی ہو چکی

اب تو چلئے پیار کی باتیں کریں

اختر شیرانی

دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا

وہ تری یاد تھی اب یاد آیا

ناصر کاظمی

عاشقی صبر طلب اور تمنا بیتاب

دل کا کیا رنگ کروں خون جگر ہوتے تک

مرزا غالب

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد

آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

مرزا غالب

جس کی آنکھوں میں کٹی تھیں صدیاں

اس نے صدیوں کی جدائی دی ہے

گلزار

آخری ہچکی ترے زانوں پہ آئے

موت بھی میں شاعرانہ چاہتا ہوں

قتیل شفائی

صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں

خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ

انور شعور

لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے

تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے

جاں نثار اختر

چلو اچھا ہوا کام آ گئی دیوانگی اپنی

وگرنہ ہم زمانے بھر کو سمجھانے کہاں جاتے

قتیل شفائی

کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو

مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو

بشیر بدر

وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں

مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

حسرتؔ موہانی

ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

فراق گورکھپوری

ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی

مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی

کلیم عاجز

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

فیض احمد فیض

یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

جگر مراد آبادی

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

بشیر بدر

میرے ہم نفس میرے ہم نوا مجھے دوست بن کے دغا نہ دے

میں ہوں درد عشق سے جاں بلب مجھے زندگی کی دعا نہ دے

شکیل بدایونی

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا

جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

جوش ملیح آبادی

اک رات وہ گیا تھا جہاں بات روک کے

اب تک رکا ہوا ہوں وہیں رات روک کے

فرحت احساس

اک روز کھیل کھیل میں ہم اس کے ہو گئے

اور پھر تمام عمر کسی کے نہیں ہوئے

وپل کمار

مانگ لوں تجھ سے تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے

سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے

امیر مینائی

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

مرزا غالب

اے دل تمام نفع ہے سودائے عشق میں

اک جان کا زیاں ہے سو ایسا زیاں نہیں

مفتی صدرالدین آزردہ

اس تعلق میں نہیں ممکن طلاق

یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں

انور شعور

ایک چہرہ ہے جو آنکھوں میں بسا رہتا ہے

اک تصور ہے جو تنہا نہیں ہونے دیتا

جاوید نسیمی

قتیلؔ اب دل کی دھڑکن بن گئی ہے چاپ قدموں کی

کوئی میری طرف آتا ہوا محسوس ہوتا ہے

قتیل شفائی

وہ تو خوش بو ہے ہواؤں میں بکھر جائے گا

مسئلہ پھول کا ہے پھول کدھر جائے گا

پروین شاکر

اس کو جدا ہوئے بھی زمانہ بہت ہوا

اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا

احمد فراز

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے