Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

سچ پر اشعار

عام زندگی میں سچ اور

جھوٹ کی کیا منطق ہے ،سچ بولنا کتنا مشکل ہوتا ہے اور اس کے کیا خسارے ہوتے ہیں ،جھوٹ بظاہر کتنا طاقت ور اوراثر انداز ہوتا ہے ان سب باتوں کو شاعری میں کثرت سے موضوع بنایا گیا ہے ۔ ہمارے اس انتخاب میں جھوٹ، سچ اور ان کے ارد گرد پھیلے ہوئے معاملات کی کتھا پڑھئے۔

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

پروین شاکر

جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہیئے

ظفر اقبال

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے

اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

وسیم بریلوی

صادق ہوں اپنے قول کا غالبؔ خدا گواہ

کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

مرزا غالب

جی بہت چاہتا ہے سچ بولیں

کیا کریں حوصلہ نہیں ہوتا

بشیر بدر

زہر میٹھا ہو تو پینے میں مزا آتا ہے

بات سچ کہیے مگر یوں کہ حقیقت نہ لگے

فضیل جعفری

ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن

اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے

کفیل آزر امروہوی

عشق میں کون بتا سکتا ہے

کس نے کس سے سچ بولا ہے

احمد مشتاق

اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے

روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا

ندا فاضلی

رات کو رات کہہ دیا میں نے

سنتے ہی بوکھلا گئی دنیا

حفیظ میرٹھی

جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں

میں اپنے شہر کا سب سے بڑا فسادی ہوں

شکیل شاہ

آسمانوں سے فرشتے جو اتارے جائیں

وہ بھی اس دور میں سچ بولیں تو مارے جائیں

امید فاضلی

سچ کے سودے میں نہ پڑنا کہ خسارا ہوگا

جو ہوا حال ہمارا سو تمہارا ہوگا

انجم رومانی

صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

جگر مراد آبادی

جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے

وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں

عابد ادیب

سمجھا ہے حق کو اپنے ہی جانب ہر ایک شخص

یہ چاند اس کے ساتھ چلا جو جدھر گیا

پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی

واقعہ کچھ بھی ہو سچ کہنے میں رسوائی ہے

کیوں نہ خاموش رہوں اہل نظر کہلاؤں

شہزاد احمد

کچھ لوگ جو خاموش ہیں یہ سوچ رہے ہیں

سچ بولیں گے جب سچ کے ذرا دام بڑھیں گے

کمال احمد صدیقی

وہ کم سخن تھا مگر ایسا کم سخن بھی نہ تھا

کہ سچ ہی بولتا تھا جب بھی بولتا تھا بہت

اختر ہوشیارپوری

وفا کے شہر میں اب لوگ جھوٹ بولتے ہیں

تو آ رہا ہے مگر سچ کو مانتا ہے تو آ

غلام محمد قاصر

میں اس سے جھوٹ بھی بولوں تو مجھ سے سچ بولے

مرے مزاج کے سب موسموں کا ساتھی ہو

افتخار عارف

ہر حقیقت ہے ایک حسن حفیظؔ

اور ہر حسن اک حقیقت ہے

حفیظ بنارسی

کس کام کی ایسی سچائی جو توڑ دے امیدیں دل کی

تھوڑی سی تسلی ہو تو گئی مانا کہ وہ بول کے جھوٹ گیا

آرزو لکھنوی

کہئے جو جھوٹ تو ہم ہوتے ہیں کہہ کے رسوا

سچ کہئے تو زمانہ یارو نہیں ہے سچ کا

مصحفی غلام ہمدانی

میں سچ تو بولتا ہوں مگر اے خدائے حرف

تو جس میں سوچتا ہے مجھے وہ زبان دے

حمایت علی شاعر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے