میر حسن
غزل 95
اشعار 106
اور کچھ تحفہ نہ تھا جو لاتے ہم تیرے نیاز
ایک دو آنسو تھے آنکھوں میں سو بھر لائیں ہیں ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
رباعی 4
نعت 1
مثنوی 1
کتاب 64
تصویری شاعری 5
دل_بر سے ہم اپنے جب ملیں_گے اس گم_شدہ دل سے تب ملیں_گے یہ کس کو خبر ہے اب کے بچھڑے کیا جانیے اس سے کب ملیں_گے جان_و_دل_و_ہوش_و_صبر_و_طاقت اک ملنے سے اس کے سب ملیں_گے دنیا ہے سنبھل کے دل لگانا یاں لوگ عجب عجب ملیں_گے ظاہر میں تو ڈھب نہیں ہے کوئی ہم یار سے کس سبب ملیں_گے ہوگا کبھی وہ بھی دور جو ہم دل_دار سے روز_و_شب ملیں_گے آرام حسنؔ تبھی تو ہوگا اس لب سے جب اپنے لب ملیں_گے
ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ_جبیں اور جانا ہے کہیں اور تو جاتا ہوں کہیں اور جب تو ہی کرے دشمنی ہم سے تو غضب ہے تیرے تو سوا اپنا کوئی دوست نہیں اور میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جاتے ہی تیرے برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور وعدہ تو ترے آنے کا ہے سچ ہی ولیکن بازو کے پھڑکنے سے ہوا دل کو یقیں اور آخر تو کہاں کوچہ ترا اور کہاں ہم کر لیویں یہاں بیٹھ کے اک آہ_حزیں اور تھا روئے_زمیں تنگ زبس ہم نے نکالی رہنے کے لیے شعر کے عالم میں زمیں اور نام اپنا لکھاوے تو لکھا دل پہ تو میرے اس نام کو بہتر نہیں اس سے تو نگیں اور ابرو کی تو تھی چین مرے دل پہ غضب پر مژگاں سے نمودار ہوئے خنجر_کیں اور نکلے تو اسی کوچہ سے یہ گم_شدہ نکلے ڈھونڈھے ہے حسنؔ دل کو تو پھر ڈھونڈ وہیں اور