خدا پر اشعار
خدا کی ذات میں تخلیق
کاروں کی دلچسپی عام انسانوں سے ذرا مختلف نوعیت کی رہی ہے ۔ وہ بعض تخلیقی لمحوں میں اس سے لڑتے ہیں ، جھگڑتے ہیں ، اس کے وجود اوراس کی خودمختاری پرسوال بناتے ہیں اوربعض لمحے ایسے بھی آتے ہیں جب خدا کی ذات کا انکشاف ہی ان کے تخلیقی لمحوں کا حاصل ہوتا ہے۔ صوفی شعرا کے یہاں خدا سے رازونیاز اوراس سے مکالمے کی ایک دلچسپ فضا بھی ملتی ہے۔ آپ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اوردیکھئے کہ ایک انسان کے خدا سے تعلق کی صورتیں کتنی متنوع ہیں ۔
عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
جھولیاں سب کی بھرتی جاتی ہیں
دینے والا نظر نہیں آتا
گلشن دہر میں سو رنگ ہیں حاتمؔ اس کے
وہ کہیں گل ہے کہیں بو ہے کہیں بوٹا ہے
چھوڑا نہیں خودی کو دوڑے خدا کے پیچھے
آساں کو چھوڑ بندے مشکل کو ڈھونڈتے ہیں
اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں
فیضان محبت عام سہی عرفان محبت عام نہیں
-
موضوع : محبت
سب لوگ اپنے اپنے خداؤں کو لائے تھے
اک ہم ہی ایسے تھے کہ ہمارا خدا نہ تھا
ٹھہری جو وصل کی تو ہوئی صبح شام سے
بت مہرباں ہوئے تو خدا مہرباں نہ تھا
-
موضوعات : بتاور 1 مزید
گل غنچے آفتاب شفق چاند کہکشاں
ایسی کوئی بھی چیز نہیں جس میں تو نہ ہو
زبان ہوش سے یہ کفر سرزد ہو نہیں سکتا
میں کیسے بن پئے لے لوں خدا کا نام اے ساقی
گناہ گن کے میں کیوں اپنے دل کو چھوٹا کروں
سنا ہے تیرے کرم کا کوئی حساب نہیں
زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لیے
تو آسمان سے اترا خدا ہمارے لیے
-
موضوع : آسمان
دہر میں اک ترے سوا کیا ہے
تو نہیں ہے تو پھر بھلا کیا ہے
ہے غلط گر گمان میں کچھ ہے
تجھ سوا بھی جہان میں کچھ ہے
آپ کرتے جو احترام بتاں
بتکدے خود خدا خدا کرتے
-
موضوع : بت
فطرت میں آدمی کی ہے مبہم سا ایک خوف
اس خوف کا کسی نے خدا نام رکھ دیا
تمام پیکر بدصورتی ہے مرد کی ذات
مجھے یقیں ہے خدا مرد ہو نہیں سکتا
صنم پرستی کروں ترک کیوں کر اے واعظ
بتوں کا ذکر خدا کی کتاب میں دیکھا
سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے
-
موضوعات : سوالاور 1 مزید
اب تو ہے عشق بتاں میں زندگانی کا مزہ
جب خدا کا سامنا ہوگا تو دیکھا جائے گا
رہنے دے اپنی بندگی زاہد
بے محبت خدا نہیں ملتا
اے صنم جس نے تجھے چاند سی صورت دی ہے
اسی اللہ نے مجھ کو بھی محبت دی ہے
-
موضوعات : حسناور 2 مزید
اسی نے چاند کے پہلو میں اک چراغ رکھا
اسی نے دشت کے ذروں کو آفتاب کیا
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
میں پیمبر ترا نہیں لیکن
مجھ سے بھی بات کر خدا میرے
ارے او آسماں والے بتا اس میں برا کیا ہے
خوشی کے چار جھونکے گر ادھر سے بھی گزر جائیں
-
موضوعات : خوشیاور 1 مزید
جب سفینہ موج سے ٹکرا گیا
ناخدا کو بھی خدا یاد آ گیا
کعبے میں بھی وہی ہے شوالے میں بھی وہی
دونوں مکان اس کے ہیں چاہے جدھر رہے
پوچھے گا جو خدا تو یہ کہہ دیں گے حشر میں
ہاں ہاں گنہ کیا تری رحمت کے زور پر
تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
اہل معنی جز نہ بوجھے گا کوئی اس رمز کو
ہم نے پایا ہے خدا کو صورت انساں کے بیچ
-
موضوع : انسان
مرے گناہ زیادہ ہیں یا تری رحمت
کریم تو ہی بتا دے حساب کر کے مجھے
-
موضوع : گناہ
گناہوں سے ہمیں رغبت نہ تھی مگر یا رب
تری نگاہ کرم کو بھی منہ دکھانا تھا
اے خدا میری رگوں میں دوڑ جا
شاخ دل پر اک ہری پتی نکال
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعور سجدہ نہیں ہے مجھ کو
یہ سر ترے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے
دیر و کعبہ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات دن
ڈھونڈھنے سے بھی تو بندوں کو خدا ملتا نہیں
-
موضوع : دیر/حرم
دیکھ چھوٹوں کو ہے اللہ بڑائی دیتا
آسماں آنکھ کے تل میں ہے دکھائی دیتا
جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
-
موضوع : تصوف
جو چاہئے سو مانگیے اللہ سے امیرؔ
اس در پہ آبرو نہیں جاتی سوال سے
کعبہ و دیر میں اب ڈھونڈ رہی ہے دنیا
جو دل و جان میں بستا تھا خدا اور ہی تھا
نہ مانگیے جو خدا سے تو مانگیے کس سے
جو دے رہا ہے اسی سے سوال ہوتا ہے
چل دئیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومنؔ
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا
یارب تری رحمت سے مایوس نہیں فانیؔ
لیکن تری رحمت کی تاخیر کو کیا کہیے
وہ خدا ہے تو مری روح میں اقرار کرے
کیوں پریشان کرے دور کا بسنے والا
وہ ہے بڑا کریم رحیم اس کی ذات ہے
ناحق گناہ گاروں کو فکر نجات ہے