Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بندگی پر اشعار

بندگی اپنے سیدھے سے

مفہوم میں خدا اور بندے کے بیچ کے رشتے کی صورت کا نام ہے ۔ شاعری میں اس رشتے کی کشمکش اور اس کے سکھ دکھ کو طرح طرح سے موضوع بنایا گیاہے ۔ بندہ کبھی بندگی کے بار تلے دب جاتا ہے اور کبھی بندگی میں بھی اپنی خودبینی اور آزادہ روی کی راہیں تلاش کرتا ہے ۔ ہمارا یہ چھوٹا سا انتخاب بندگی کی انہیں الجھی ہوئی کیفیتوں کا بیان ہے ۔

عاشقی سے ملے گا اے زاہد

بندگی سے خدا نہیں ملتا

داغؔ دہلوی

بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ

کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں

احمد فراز

دل ہے قدموں پر کسی کے سر جھکا ہو یا نہ ہو

بندگی تو اپنی فطرت ہے خدا ہو یا نہ ہو

جگر مراد آبادی

رہنے دے اپنی بندگی زاہد

بے محبت خدا نہیں ملتا

مبارک عظیم آبادی

یہی ہے زندگی اپنی یہی ہے بندگی اپنی

کہ ان کا نام آیا اور گردن جھک گئی اپنی

ماہر القادری

تو میرے سجدوں کی لاج رکھ لے شعور سجدہ نہیں ہے مجھ کو

یہ سر ترے آستاں سے پہلے کسی کے آگے جھکا نہیں ہے

رفیق راز

سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا

جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے

مجید امجد

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

مرزا غالب

جواز کوئی اگر میری بندگی کا نہیں

میں پوچھتا ہوں تجھے کیا ملا خدا ہو کر

شہزاد احمد

دوستی بندگی وفا و خلوص

ہم یہ شمع جلانا بھول گئے

انجم لدھیانوی

قبول ہو کہ نہ ہو سجدہ و سلام اپنا

تمہارے بندے ہیں ہم بندگی ہے کام اپنا

مبارک عظیم آبادی

صدق و صفائے قلب سے محروم ہے حیات

کرتے ہیں بندگی بھی جہنم کے ڈر سے ہم

شکیل بدایونی

بندگی کا مری انداز جدا ہوتا ہے

میرا کعبہ میرے سجدوں میں چھپا ہوتا ہے

نامعلوم

شاہوں کی بندگی میں سر بھی نہیں جھکایا

تیرے لیے سراپا آداب ہو گئے ہم

تابش دہلوی

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں کہ ہم

الٹے پھر آئے در کعبہ اگر وا نہ ہوا

مرزا غالب

اپنی خوئے وفا سے ڈرتا ہوں

عاشقی بندگی نہ ہو جائے

بیخود بدایونی

خلوص ہو تو کہیں بندگی کی قید نہیں

صنم کدے میں طواف حرم بھی ممکن ہے

مضطر حیدری

کیسے کریں بندگی ظفرؔ واں

بندوں کی جہاں خدائیاں ہیں

صابر ظفر

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے