ساحل پر اشعار
شاعری میں کوئی بھی لفظ
کسی ایک معنی، کسی ایک رنگ، کسی ایک صورت ، کسی ایک ذہنی اور جذباتی رویے تک محدود نہیں رہتا ہے ۔ ساحل کو موضوع بنانے والے اس شعری بیانیے میں آپ اس بات کو محسوس کریں گے کہ ساحل پر ہونا سمندر کی سفاکیوں سے نکلنے کے بعد کامیابی کا استعارہ بھی ہے ساتھ ہی بزدلی ،کم ہمتی اور نامرادی کی علامت بھی ۔ ساحل کی اور بھی کئی متضاد معنیاتی جہتیں ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ ساحل کے ان مختلف رنگوں سے گزریں گے ۔
سفر میں کوئی کسی کے لیے ٹھہرتا نہیں
نہ مڑ کے دیکھا کبھی ساحلوں کو دریا نے
-
موضوعات : دریااور 1 مزید
اگر موجیں ڈبو دیتیں تو کچھ تسکین ہو جاتی
کناروں نے ڈبویا ہے مجھے اس بات کا غم ہے
دریا کے تلاطم سے تو بچ سکتی ہے کشتی
کشتی میں تلاطم ہو تو ساحل نہ ملے گا
اس نا خدا کے ظلم و ستم ہائے کیا کروں
کشتی مری ڈبوئی ہے ساحل کے آس پاس
مسافر اپنی منزل پر پہنچ کر چین پاتے ہیں
وہ موجیں سر پٹکتی ہیں جنہیں ساحل نہیں ملتا
-
موضوع : مسافر
ساحل پہ لوگ یوں ہی کھڑے دیکھتے رہے
دریا میں ہم جو اترے تو دریا اتر گیا
-
موضوع : دریا
کشتیاں ڈوب رہی ہیں کوئی ساحل لاؤ
اپنی آنکھیں مری آنکھوں کے مقابل لاؤ
-
موضوع : کشتی
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
-
موضوعات : تشنگیاور 1 مزید
میں جس رفتار سے طوفاں کی جانب بڑھتا جاتا ہوں
اسی رفتار سے نزدیک ساحل ہوتا جاتا ہے
سفینہ ہو رہا ہے غرق طوفاں
نگاہوں سے کنارے جا رہے ہیں