Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مے کدہ پر اشعار

شاعروں نے مے ومیکدے

کے مضامین کو بہت تسلسل کے ساتھ باندھا ہے ۔ کلاسیکی شاعری کا یہ بہت مرغوب مضمون رہا ہے ۔ میکدے کا یہ شعری بیان اتنا دلچسپ اور اتنا رنگا رنگ ہے کہ آپ اسے پڑھ کر ہی خود کو میکدے کی ہاؤ ہو میں محسوس کرنے لگیں گے ۔ میکدے سے جڑے ہوئے اور بھی بہت سے پہلو ہیں ۔ زاہد ، ناصح ، توبہ ، مسجد ، ساقی جیسی لفظیات کے گرد پھیلے ہوئے اس موضوع پر مشتمل ہمارا یہ شعری انتخاب آپ کو پسند آئے گا ۔

یہ مے خانہ ہے بزم جم نہیں ہے

یہاں کوئی کسی سے کم نہیں ہے

جگر مراد آبادی

پیار ہی پیار ہے سب لوگ برابر ہیں یہاں

مے کدہ میں کوئی چھوٹا نہ بڑا جام اٹھا

بشیر بدر

ہوش آنے کا تھا جو خوف مجھے

مے کدے سے نہ عمر بھر نکلا

جلیل مانک پوری

زندگی نام اسی موج مے ناب کا ہے

مے کدے سے جو اٹھے دار و رسن تک پہنچے

کمال احمد صدیقی

واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے

میکدہ اب تو میکدہ نہ رہا

بیخود بدایونی

نہ تم ہوش میں ہو نہ ہم ہوش میں ہیں

چلو مے کدہ میں وہیں بات ہوگی

بشیر بدر

چشم ساقی مجھے ہر گام پہ یاد آتی ہے

راستا بھول نہ جاؤں کہیں میخانے کا

اقبال صفی پوری

سرک کر آ گئیں زلفیں جو ان مخمور آنکھوں تک

میں یہ سمجھا کہ مے خانے پہ بدلی چھائی جاتی ہے

نشور واحدی

مسجد میں بلاتے ہیں ہمیں زاہد نا فہم

ہوتا کچھ اگر ہوش تو مے خانے نہ جاتے

امیر مینائی

اخیر وقت ہے کس منہ سے جاؤں مسجد کو

تمام عمر تو گزری شراب خانے میں

حفیظ جونپوری

بہار آتے ہی ٹکرانے لگے کیوں ساغر و مینا

بتا اے پیر مے خانہ یہ مے خانوں پہ کیا گزری

جگن ناتھ آزاد

مے خانے کی سمت نہ دیکھو

جانے کون نظر آ جائے

حفیظ میرٹھی

ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا

ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے

شیخ ابراہیم ذوقؔ

مے کدے کی طرف چلا زاہد

صبح کا بھولا شام گھر آیا

کلیم عاجز

ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے

لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے

اصغر گونڈوی

کبھی تو دیر و حرم سے تو آئے گا واپس

میں مے کدے میں ترا انتظار کر لوں گا

عبد الحمید عدم

دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم

بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم

نظیر اکبرآبادی

میکدے کو جا کے دیکھ آؤں یہ حسرت دل میں ہے

زاہد اس مٹی کی الفت میری آب و گل میں ہے

حبیب موسوی

کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

مرزا غالب

توبہ کھڑی ہے در پہ جو فریاد کے لئے

یہ مے کدہ بھی کیا کسی قاضی کا گھر ہوا

احمد حسین مائل

اے مصحفیؔ اب چکھیو مزا زہد کا تم نے

مے خانے میں جا جا کے بہت پی ہیں شرابیں

مصحفی غلام ہمدانی

رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے

جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے

اصغر گونڈوی

جا سکے نہ مسجد تک جمع تھے بہت زاہد

میکدے میں آ بیٹھے جب نہ راستا پایا

حبیب موسوی

مے کدہ ہے شیخ صاحب یہ کوئی مسجد نہیں

آپ شاید آئے ہیں رندوں کے بہکائے ہوئے

حبیب موسوی

یہ کہہ دو حضرت ناصح سے گر سمجھانے آئے ہیں

کہ ہم دیر و حرم ہوتے ہوئے مے خانے آئے ہیں

نامعلوم

دخت رز اور تو کہاں ملتی

کھینچ لائے شراب خانے سے

شرف مجددی

جان میری مے و ساغر میں پڑی رہتی ہے

میں نکل کر بھی نکلتا نہیں مے خانے سے

جلیل مانک پوری

دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی

اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے

اختر شیرانی

کوئی سمجھائے کہ کیا رنگ ہے میخانے کا

آنکھ ساقی کی اٹھے نام ہو پیمانے کا

اقبال صفی پوری

مے خانے میں مزار ہمارا اگر بنا

دنیا یہی کہے گی کہ جنت میں گھر بنا

ریاضؔ خیرآبادی

مے کدہ جل رہا ہے تیرے بغیر

دل میں چھالے ہیں آبگینے کے

لالہ مادھو رام جوہر

خدا کرے کہیں مے خانہ کی طرف نہ مڑے

وہ محتسب کی سواری فریب راہ رکی

حبیب موسوی

روح کس مست کی پیاسی گئی مے خانے سے

مے اڑی جاتی ہے ساقی ترے پیمانے سے

داغؔ دہلوی

مے خانہ سلامت ہے تو ہم سرخیٔ مے سے

تزئین در و بام حرم کرتے رہیں گے

فیض احمد فیض

جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید

مسجد ہو مدرسہ ہو کوئی خانقاہ ہو

مرزا غالب

مے کدے میں نشہ کی عینک دکھاتی ہے مجھے

آسماں مست و زمیں مست و در و دیوار مست

حیدر علی آتش

تیری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے

ہمارے مے کدے میں رات دن رحمت برستی ہے

امیر مینائی

میں مے کدے کی راہ سے ہو کر نکل گیا

ورنہ سفر حیات کا کافی طویل تھا

عبد الحمید عدم

کوئی دن آگے بھی زاہد عجب زمانہ تھا

ہر اک محلہ کی مسجد شراب خانہ تھا

قائم چاندپوری

مے خانے میں کیوں یاد خدا ہوتی ہے اکثر

مسجد میں تو ذکر مے و مینا نہیں ہوتا

ریاضؔ خیرآبادی

مے کدہ ہے یہاں سکوں سے بیٹھ

کوئی آفت ادھر نہیں آتی

عبد الحمید عدم

چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے

میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ

بقا اللہ بقاؔ

شیخ اس کی چشم کے گوشے سے گوشے ہو کہیں

اس طرف مت جاؤ ناداں راہ مے خانے کی ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں

جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں

دواکر راہی

آئے تھے ہنستے کھیلتے مے خانے میں فراقؔ

جب پی چکے شراب تو سنجیدہ ہو گئے

فراق گورکھپوری

گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم

کچھ دور عادتاً بھی قدم ڈگمگائے ہیں

خمار بارہ بنکوی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے