سدرشن فاکر
غزل 17
نظم 1
اشعار 21
سامنے ہے جو اسے لوگ برا کہتے ہیں
جس کو دیکھا ہی نہیں اس کو خدا کہتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
عشق ہے عشق یہ مذاق نہیں
چند لمحوں میں فیصلہ نہ کرو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تیرے جانے میں اور آنے میں
ہم نے صدیوں کا فاصلہ دیکھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ہم تو سمجھے تھے کہ برسات میں برسے گی شراب
آئی برسات تو برسات نے دل توڑ دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
دیکھنے والو تبسم کو کرم مت سمجھو
انہیں تو دیکھنے والوں پہ ہنسی آتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
گیت 1
تصویری شاعری 6
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی محلے کی سب سے نشانی پرانی وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانی وہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈھیرا وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرا بھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا وہ گڑیوں کی شادی پہ لڑنا جھگڑنا وہ جھولوں سے گرنا وہ گرتے سنبھلنا وہ پیتل کے چھاؤں کے پیارے سے تحفے وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا گھروندے بنانا بنا کے مٹانا وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی وہ خوابوں کھلونوں کی جاگیر اپنی نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کے بندھن بڑی خوب_صورت تھی وہ زندگانی یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
اگر ہم کہیں اور وہ مسکرا دیں ہم ان کے لیے زندگانی لٹا دیں ہر اک موڑ پر ہم غموں کو سزا دیں چلو زندگی کو محبت بنا دیں اگر خود کو بھولے تو کچھ بھی نہ بھولے کہ چاہت میں ان کی خدا کو بھلا دیں کبھی غم کی آندھی جنہیں چھو نہ پائے وفاؤں کے ہم وہ نشیمن بنا دیں قیامت کے دیوانے کہتے ہیں ہم سے چلو ان کے چہرے سے پردہ ہٹا دیں سزا دیں صلہ دیں بنا دیں مٹا دیں مگر وہ کوئی فیصلہ تو سنا دیں
مری زباں سے مری داستاں سنو تو سہی یقیں کرو نہ کرو مہرباں سنو تو سہی چلو یہ مان لیا مجرم_محبت ہیں ہمارے جرم کا ہم سے بیاں سنو تو سہی بنوگے دوست مرے تم بھی دشمنو اک دن مری حیات کی آہ_و_فغاں سنو تو سہی لبوں کو سی کے جو بیٹھے ہیں بزم_دنیا میں کبھی تو ان کی بھی خاموشیاں سنو تو سہی