رفیق راز
غزل 32
اشعار 4
روح میں جس نے یہ دہشت سی مچا رکھی ہے
اس کی تصویر گماں بھر تو بنا سکتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
قاتل کو روشنی میں دکھائی دیا نہ میں
ایسی چمک تھی خنجر براں میں بچ گیا
تشریح
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ماسوا شاعر کے دنیا کے سب لوگ جھوٹ بڑی لیاقت کے ساتھ بولتے ہیں۔ صرف اور صرف شاعر ہی ہمیں شاعرانہ سچائی بتا سکتا ہے۔ شاعرانہ سچائی دشمن کے اس پتلے کی طرح ہوتا ہے جس پر وار کرکے تسکین ہوتی ہے۔ شاعر اس نوع کی صورت گری کے لیے ایک تخیلاتی فضا تیّار کرتا ہے جس کی بنیاد پر ایک تمثیلی بیانیہ پر استوار ہوتی ہے جسے Image of realityکہتے ہیں۔
رفیق رازؔ نے بالکل اسی طرز پر س شعر میں ایک تمثیلی بیانیہ قائم کرنے کے لیے ایک ایسے پیکر کو تراشا ہے جو ماہیتِ شعر کی پوری طرح سے تقلیب کرتا ہے۔ اس شعر میں کئی مرکبات سے وجہ شبیہ کو تخلیق کیا گیا ہے۔ (۱) روشنی(۲) چمک(۳)خنجر(۴) تلوار کی چمک میں آنکھوں کا چکاچوند ہوجانا۔ ان سب مرکبات سے جو معنوی صورت تیّار ہوتی ہے اسے اگرچہ تجرید، غلو اور مبالغہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے مگر شاعر نے بڑی خوبصورتی سے اس صورت کو تبلیغ کی حدود میں داخل کردیا ہے۔ اس خوبی کو ہم اپنی سہولت کے لیے حقیقتِ معکوس سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں۔ اس صنعت گری کے لیے شاعرانہ مشاہدے کی گہرائی، تخلیقی تجربے کی وسعت کے ساتھ قاری کے دماغ کو ایک جادوئی بیانیہ کو حقیقت کے طور پر رتسلیم کرنے پر آمادہ کرنے کا جواز بھی ہونا چاہیے۔ رازؔ نے اس شعر میں تخیل کے غیر مرئی مظہر کو قابلِ دید و قابلِ یقین بنانے کے لیے جن استعاروں کاسہارا لیا ہے وہ حقیقتِ معکوس کو عدم قبولیت کی حدود سے نکالنے میں خود کفیل ہیں۔
شعر کا خمیر ایک قصّے سے تیّار ہوتا ہے جس کے فی الوقت دو کردار ہیں۔ ایک متکلم اور دوسرا اس کو قتل کرنے والا۔ ’’ روشنی، دکھائی دیا نہ میں، چمک، خنجرِ برّاں، بچ گیا۔‘‘ان الفاظ اور ان کے تلازمات سے جو پیکر تخلیق ہوتا ہے وہ بیک وقت بصری اور حرکی ہے۔ بظاہر شعر میں راوی کو قتل کرنے کی غرض سے قاتل آیا ہے مگر اپنے ہی خنجر کی سے اس کی آنکھیں چکاچوند ہوجاتی ہیں اور (اس کی آنکھیں جھپکتے ہی ) راوی بھاگ جاتا ہے۔ سوداؔ کا مصرعہ یاد آتا ہے:ع
رنجک ہی بہرِ مشق اڑایا کرے ہے برق
خنجرِ برّاں کی ترکیب نے چمک اور روشنی کی تکرار کو نہ صرف جواز بخشاہے بلکہ شعر میں لطافت بھی پیدا کی ہے۔ ’’بچ گیا‘‘ کو اگر دوسرے الفاظ سے اٹھتی ہوئی لہروں سے ہم آہنگ کرکے لہجہ بدل بدل کر پڑھا جائے تو اس میں ایک حیرانی کا عالم چھپا ہے جس میں خوشی بھی ہے، دہشت اور حیرت بھی۔ خوشی اس بات کی کہ قتل ہونے سے بچ گیا۔ دہشت اس بات کی کہ قاتل اور اس کا تابدار خنجر دیکھ کر آیا ہے۔ اور حیرانی اس بات کی کہ بچنے کی جو وجہ بن گئی وہ ناقابلِ یقین ہے۔ بقولِ میر: ؎
سخت بے رحم آہ قاتل ہے
میری خوں ریزی کا ہی قائل ہے
ممکن ہے قاتل کی خوں ریزی پر مائل طبیعت کو خیال میں رکھتے ہوئے کسی نے راوی سے بچنے کا سبب دریافت کیا ہو۔ اس طرح سے قصّے میں تیسرا یا کئی اور کردار شامل ہوجاتے ہیں۔ راوی جو سبب بیان کرتا ہے وہ نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ اس پر مشکل سے یقین کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ عام آدمی کے خیال میں یہی آئے گا کہ خنجر کی چمک اور اس سے پیدا ہونے والی روشنی قاتل کی بصارت کو اور بھی موثر بنا سکتے ہیں۔ مگر راوی جو وجہ بیان کرتا ہے اس کی تکذیب بھی آسان نہیں۔ اس طرح شاعر اپنے قاری کو تذبذب کی کیفیت سے دوچار کرتا ہے۔ مضمون آفرینی اور خیال بندی کی اس سے بڑھ کر کیا مثال ہوسکتی ہے کہ قاتل کی آنکھیں اس کے اپنے ہی خنجر کی چمک سے( جو سان پر چڑھا کر پیدا کی گئی ہے۔) چکا چوند ہوجاتی ہیں۔ قاتل کی Ironyبھی قابلِ دید ہے۔ ’’بچ گیا‘‘ کو اس بات سے بھی تعبیر کیا جاسکتا ہے کہ قاتل (گناہَ کبیرہ) سے بچ گیا۔ سودا کا ایک شعر یاد آتا ہے:؎
مٹتا نہیں نوشتۂ وسمت کسی طرح
جوہر کبھی نہ خنجرِ برّاں سے دور ہو
غالب کا یہ شعر بھی ملاحظہ کریں:؎
سوادِ چشمِ بسمل انتخابِ نکتہ آرائی ہے
خرامِ ناز ہے بے پروائی ٔ قاتل پسند آیا
رفیق رازؔ کا شعر غضب کا ہے۔
شفق سوپوری
سیاہ دشت کی جانب سفر دوبارہ کیا
نہ جانے قاف کی پریوں نے کیا اشارہ کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے