خاموشی پر اشعار
خاموشی کو موضوع بنانے
والے ان شعروں میں آپ خاموشی کا شور سنیں گے اور دیکھیں گے کہ الفاظ کے بے معنی ہوجانے کے بعد خاموشی کس طرح کلام کرتی ہے ۔ ہم نے خاموشی پر بہترین شاعری کا انتخاب کیا ہے اسے پڑھئے اور خاموشی کی زبان سے آگاہی حاصل کیجیے ۔
جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی اک خامشی مری
آپ نے تصویر بھیجی میں نے دیکھی غور سے
ہر ادا اچھی خموشی کی ادا اچھی نہیں
رنگ درکار تھے ہم کو تری خاموشی کے
ایک آواز کی تصویر بنانی تھی ہمیں
-
موضوعات : تصویراور 1 مزید
سبب خاموشیوں کا میں نہیں تھا
مرے گھر میں سبھی کم بولتے تھے
میری خاموشیوں میں لرزاں ہے
میرے نالوں کی گم شدہ آواز
اسے بے چین کر جاؤں گا میں بھی
خموشی سے گزر جاؤں گا میں بھی
میں تیرے کہے سے چپ ہوں لیکن
چپ بھی تو بیان مدعا ہے
چھیڑ کر جیسے گزر جاتی ہے دوشیزہ ہوا
دیر سے خاموش ہے گہرا سمندر اور میں
-
موضوعات : سمندراور 1 مزید
زور قسمت پہ چل نہیں سکتا
خامشی اختیار کرتا ہوں
ہر ایک بات زباں سے کہی نہیں جاتی
جو چپکے بیٹھے ہیں کچھ ان کی بات بھی سمجھو
ہم نے اول تو کبھی اس کو پکارا ہی نہیں
اور پکارا تو پکارا بھی صداؤں کے بغیر
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
علم کی ابتدا ہے ہنگامہ
علم کی انتہا ہے خاموشی
تمہارے خط میں نظر آئی اتنی خاموشی
کہ مجھ کو رکھنے پڑے اپنے کان کاغذ پر
-
موضوع : خط
بہت گہری ہے اس کی خامشی بھی
میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں
خموشی سے ادا ہو رسم دوری
کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم
تمام شہر پہ اک خامشی مسلط ہے
اب ایسا کر کہ کسی دن مری زباں سے نکل
چپ رہو تو پوچھتا ہے خیر ہے
لو خموشی بھی شکایت ہو گئی
ٹوٹتے برتن کا شور اور گونگی بہری خامشی
ہم نے رکھ لی ہے بچا کر ایک گہری خامشی
بول پڑتا تو مری بات مری ہی رہتی
خامشی نے ہیں دئے سب کو فسانے کیا کیا
محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے
-
موضوعات : آوازاور 2 مزید
وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا
اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے میں
صوت کیا شے ہے خامشی کیا ہے
غم کسے کہتے ہیں خوشی کیا ہے
-
موضوعات : خوشیاور 1 مزید
یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا
کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں
چپ چاپ اپنی آگ میں جلتے رہو فرازؔ
دنیا تو عرض حال سے بے آبرو کرے
شور جتنا ہے کائنات میں شور
میرے اندر کی خامشی سے ہوا
باقیؔ جو چپ رہوگے تو اٹھیں گی انگلیاں
ہے بولنا بھی رسم جہاں بولتے رہو
خموشی میں ہر بات بن جائے ہے
جو بولے ہے دیوانہ کہلائے ہے
خامشی چھیڑ رہی ہے کوئی نوحہ اپنا
ٹوٹتا جاتا ہے آواز سے رشتہ اپنا
جو چپ رہا تو وہ سمجھے گا بد گمان مجھے
برا بھلا ہی سہی کچھ تو بول آؤں میں
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خامشی کیا چیز ہے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
ایک دن میری خامشی نے مجھے
لفظ کی اوٹ سے اشارہ کیا
مری خاموشیوں پر دنیا مجھ کو طعن دیتی ہے
یہ کیا جانے کہ چپ رہ کر بھی کی جاتی ہیں تقریریں
میں چپ رہا کہ وضاحت سے بات بڑھ جاتی
ہزار شیوۂ حسن بیاں کے ہوتے ہوئے
خامشی تیری مری جان لیے لیتی ہے
اپنی تصویر سے باہر تجھے آنا ہوگا
-
موضوع : تصویر
کیا بتاؤں میں کہ تم نے کس کو سونپی ہے حیا
اس لئے سوچا مری خاموشیاں ہی ٹھیک ہیں
-
موضوع : حیا
وحشتؔ اس بت نے تغافل جب کیا اپنا شعار
کام خاموشی سے میں نے بھی لیا فریاد کا
-
موضوع : تغافل
خموشی دل کو ہے فرقت میں دن رات
گھڑی رہتی ہے یہ آٹھوں پہر بند
سنتی رہی میں سب کے دکھ خاموشی سے
کس کا دکھ تھا میرے جیسا بھول گئی
نکالے گئے اس کے معنی ہزار
عجب چیز تھی اک مری خامشی
ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی
رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے
-
موضوع : رات
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
دور خاموش بیٹھا رہتا ہوں
اس طرح حال دل کا کہتا ہوں
عجیب شور مچانے لگے ہیں سناٹے
یہ کس طرح کی خموشی ہر اک صدا میں ہے
خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو
لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے
میری عرض شوق بے معنی ہے ان کے واسطے
ان کی خاموشی بھی اک پیغام ہے میرے لیے
جب خامشی ہی بزم کا دستور ہو گئی
میں آدمی سے نقش بہ دیوار بن گیا