کلیم عاجز
غزل 63
نظم 1
اشعار 67
درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے
زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
نہ جانے روٹھ کے بیٹھا ہے دل کا چین کہاں
ملے تو اس کو ہمارا کوئی سلام کہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کتاب 19
تصویری شاعری 7
بیکسی ہے اور دل ناشاد ہے اب انہیں دونوں سے گھر آباد ہے اب انہیں کی فکر میں صیاد ہے جن کے نغموں سے چمن آباد ہے جو مجھے برباد کر کے شاد ہے اس ستم_گر کو مبارک_باد ہے تم نے جو چاہا وہی ہو کر رہا یہ ہماری مختصر روداد ہے ہم نے تم سے رکھ کے امید_کرم وہ سبق سیکھا کہ اب تک یاد ہے بے_بسی بن کر نہ ٹپکے آنکھ سے دل میں جو اک حسرت_فریاد ہے
کوئے_قاتل ہے مگر جانے کو جی چاہے ہے اب تو کچھ فیصلہ کر جانے کو جی چاہے ہے لوگ اپنے در_و_دیوار سے ہوشیار رہیں آج دیوانے کا گھر جانے کو جی چاہے ہے درد ایسا ہے کہ جی چاہے ہے زندہ رہئے زندگی ایسی کہ مر جانے کو جی چاہے ہے دل کو زخموں کے سوا کچھ نہ دیا پھولوں نے اب تو کانٹوں میں اتر جانے کو جی چاہے ہے چھاؤں وعدوں کی ہے بس دھوکا ہی دھوکا اے دل مت ٹھہر گرچہ ٹھہر جانے کو جی چاہے ہے زندگی میں ہے وہ الجھن کہ پریشاں ہو کر زلف کی طرح بکھر جانے کو جی چاہے ہے قتل کرنے کی ادا بھی حسیں قاتل بھی حسیں نہ بھی مرنا ہو تو مر جانے کو جی چاہے ہے جی یہ چاہے ہے کہ پوچھوں کبھی ان زلفوں سے کیا تمہارا بھی سنور جانے کو جی چاہے ہے رسن_و_دار ادھر کاکل_و_رخسار ادھر دل بتا تیرا کدھر جانے کو جی چاہے ہے