چراغ پر اشعار
چراغ اور اس کی روشنی
کو شاعری میں ایک مثبت قدر کے طور پر دیکھا گیا ہے ۔ چراغ اپنی ناتوانی اور بجھ جانے کے قوی امکان کے باوجود اندھیرے کے خلاف ایک محاذ کھولے رہتا ہے اور روشنی لٹاتا رہتا ہے ۔ چراغ کے اور بھی کئی استعاراتی پہلو ہیں جو اور زیادہ دلچسپ ہیں ۔ ہمارا یہ ایک چھوٹا سا انتخاب پڑھئے ۔
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
تشریح
اس شعر میں کئی تلازمات ایسے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وسیم بریلوی شعر میں معنی کے ساتھ کیفیت پیدا کرنے کے فن سے واقف ہیں۔ ’جہاں‘ کی مناسبت سے ’وہیں‘، اور ان دونوں کی رعایت سے ’مکاں‘، ’چراغ‘ کی مناسبت سے ’روشنی‘ اور اس سے بڑھ کر کسی، یہ سب ایسے تلازمات ہیں جن سے شعر میں معنی آفرینی کا عنصر پیدا ہوا ہے۔
شعر کے معنیٔ قریب تو یہ ہوسکتے ہیں کہ چراغ اپنی روشنی سے کسی ایک مکاں کو روشن نہیں کرتا ہے، بلکہ جہاں جلتا ہے وہاں کی فضا کو منور کرتا ہے۔ اس شعر میں ایک لفظ ’مکاں‘مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ مکاں سے یہاں مراد محض کوئی خاص گھر نہیں بلکہ اسپیس ہے۔
اب آئیے شعر کے معنیٔ بعید پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دراصل شعر میں ’چراغ‘، ’روشنی‘ اور ’مکاں‘ کو استعاراتی حیثیت حاصل ہے۔ چراغ استعارہ ہے نیک اور بھلے آدمی کا، اس کی مناسبت سے روشنی استعارہ ہےنیکی اور بھلائی کا۔ اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نیک آدمی کسی خاص جگہ نیکی اور بھلائی پھیلانے کے لئے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کا کوئی خاص مکان نہیں ہوتا اور یہ اسپیس کے تصور سے بہت آگے کے لوگ ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی بھلا ہو۔ اگر ایسا ہے تو بھلائی ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔
شفق سوپوری
-
موضوعات : ترغیبیاور 1 مزید
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آؤ جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
تشریح
شبِ وصال یعنی محبوب سے ملاقات کی رات۔ گل کرنا یعنی بجھا دینا۔ اس شعر میں شبِ وصال کی مناسبت سے چراغ اور چراغ کی مناسبت سے گل کرنا۔ اور ’خوشی کی بزم میں‘ کی رعایت سے جلنے والے داغ دہلوی کی مضمون آفرینی کی عمدہ مثال ہے۔ شعر میں کئی کردار ہیں۔ ایک شعری کردار، دوسرا وہ( ایک یا بہت سے) جن سے شعری کردار مخاطب ہے۔ شعر میں جو طنز یہ لہجہ ہے اس نے مجموعی صورت حال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے۔اور جب ’ان چراغوں کو‘ کہا تو گویا کچھ مخصوص چراغوں کی طرف اشارہ کیا۔
شعر کے قریب کے معنی تو یہ ہیں کہ عاشق و معشوق کے ملن کی رات ہے، اس لئے چراغوں کو بجھا دو کیونکہ ایسی راتوں میں جلنے والوں کا کام نہیں۔ چراغ بجھانے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی تھی کہ ملن کی رات میں جو بھی ہو وہ پردے میں رہے مگر جب یہ کہا کہ جلنے والوں کا کیا کام ہے تو شعر کا مفہوم ہی بدل دیا۔ دراصل جلنے والے استعارہ ہیں ان لوگوں کا جو شعری کردار اور اس کے محبوب کے ملن پر جلتے ہیں اور حسد کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا ہے کہ ان حسد کرنے والوں کو اس بزم سے اٹھا دو۔
شفق سوپوری
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
-
موضوعات : ترغیبیاور 1 مزید
ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا
کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے
-
موضوع : ہوا
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
-
موضوعات : امیداور 1 مزید
شہر کے اندھیرے کو اک چراغ کافی ہے
سو چراغ جلتے ہیں اک چراغ جلنے سے
ابھی تو جاگ رہے ہیں چراغ راہوں کے
ابھی ہے دور سحر تھوڑی دور ساتھ چلو
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
-
موضوع : آبلہ
ہم اب اداس نہیں سر بہ سر اداسی ہیں
ہمیں چراغ نہیں روشنی کہا جائے
چراغ اس نے بجھا بھی دیا جلا بھی دیا
یہ میری قبر پہ منظر نیا دکھا بھی دیا
-
موضوع : قبر
اب چراغوں میں زندگی کم ہے
دل جلاؤ کہ روشنی کم ہے
اپنی تصویر کے اک رخ کو نہاں رکھتا ہے
یہ چراغ اپنا دھواں جانے کہاں رکھتا ہے
خاک سے سینکڑوں اگے خورشید
ہے اندھیرا مگر چراغ تلے
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
-
موضوعات : خوشیاور 1 مزید
کہیں کوئی چراغ جلتا ہے
کچھ نہ کچھ روشنی رہے گی ابھی
-
موضوع : روشنی
کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ
دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
یہ کہہ کے اس نے گل کیا شمع مزار کو
جب سو گئے تو کیا ہے ضرورت چراغ کی
موجد جو نور کا ہے وہ میرا چراغ ہے
پروانہ ہوں میں انجمن کائنات کا
-
موضوع : پروانہ
ستارۂ خواب سے بھی بڑھ کر یہ کون بے مہر ہے کہ جس نے
چراغ اور آئنے کو اپنے وجود کا راز داں کیا ہے
-
موضوعات : آئینہاور 1 مزید
رواں دواں ہے زندگی چراغ کے بغیر بھی
ہے میرے گھر میں روشنی چراغ کے بغیر بھی
چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
انگنت سفینوں میں دیپ جگمگاتے ہیں
رات نے لٹایا ہے رنگ و نور پانی پر
-
موضوعات : پانیاور 2 مزید
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
-
موضوع : آگہی
وہ جس منڈیر پہ چھوڑ آیا اپنی آنکھیں میں
چراغ ہوتا تو لو بھول کر چلا جاتا
-
موضوعات : آنکھاور 1 مزید
شام کے تن پر سجی جو سرمئی پوشاک ہے
ہم چراغوں کی فقط یہ روشنی پوشاک ہے
-
موضوع : شام
جو دل کے طاق میں تو نے چراغ رکھا تھا
نہ پوچھ میں نے اسے کس طرح ستارہ کیا
سوال یہ ہے روشنی وہاں پہ روک دی گئی
جہاں پہ ہر کسی کے ہاتھ میں نیا چراغ تھا
-
موضوع : روشنی