آگہی پر اشعار
آگہی کلاسیکی شاعری
میں کم کم استعمال ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آگہی سے وابستہ تصورات جدید دورکے پیدا کردہ ہیں ۔ جدید شاعری نے انسان اوراس کے باطن ، سماج اورکی مختلف شکلوں کے بارے میں جوایک داخلی اورتخلیقی فکرکو راہ دی ہے اس سے ایک نیا منظرنامہ سامنے آیا ہے ۔ انہیں بنیادوں پرجدید شعریات کا اپنا ایک انفراد بھی قائم ہوتا ہے ۔ آگہی کا رشتہ ایک سطح پر تصوف میں حاصل ہونے والی بے خودی سے بھی ملتا ہے ۔ اس انتخاب میں آگہی کے اس سفر کی چند منزلوں کے نشان ہیں ۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
-
موضوع : مشورہ
آگہی کرب وفا صبر تمنا احساس
میرے ہی سینے میں اترے ہیں یہ خنجر سارے
-
موضوعات : احساساور 3 مزید
اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی
ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی
ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے
-
موضوعات : بے خودیاور 2 مزید
سوداؔ جو بے خبر ہے وہی یاں کرے ہے عیش
مشکل بہت ہے ان کو جو رکھتے ہیں آگہی
شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
عمر جو بے خودی میں گزری ہے
بس وہی آگہی میں گزری ہے
-
موضوع : بے خودی
آگہی سے ملی ہے تنہائی
آ مری جان مجھ کو دھوکا دے
آگہی دام شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا
تشریح
مطالعہ، مشاہدہ اور غور و فکر سے حاصل کئے گئے علم کو آگاہی کہتے ہیں۔ دام شنیدن سماعت کا جال۔ عنقا، عرب دیومالا میں اک ایسا فرضی پرندہ ہے جو پرواز کی بلندی کے سبب آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا مسکن سورج کے غروب ہونے کی جگہ ہے۔ عنقا نایاب، نادرالوجود اور بےنظیر چیز کو بھی کہتے ہیں۔ شعر کا مفہوم یہ ہوا کہ کوئی کتنا بھی سمجھدار، عالم، فاضل اور توجہ سے کلام سننے والا کیوں نہ ہو، میرے کلام کا اصل مطلب اس کی گرفت سے باہر رہے گا۔ عالم تقریر کے دو معنی ہیں۔ ایک میرے کلام کی دنیا یعنی جہانِ معنی اور دوسرا وہ کیفیات جن میں کلام صادر ہوا۔ غالب کہتے ہیں کہ میرے اشعار میں خیال و معنی کی پرواز اتنی بلند اور بے نظیر ہے اور اس کی کیفیت اس قدر نامانوس ہے کہ اس کا آپ کے ہاتھ آنا محال ہے۔ اور اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی نایاب عنقا کو پکڑنے کے لئے جال بچھانے کا جتن کرے۔ میری شعری گفتگو جن کیفیات پر مبنی ہے، ان سے کوئی گزرا ہی نہیں تو پھر میرے مطلب کو کس طرح سمجھ پائے گا۔ اس کے لئے میرا مدعا مثل عنقا نایاب و نادر الوجود رہے گا۔ اس شعر میں غالب نے قاری یا سامع سے اپنے کلام کو نہ سمجھ پانے کا کوئی شکوہ نہیں کیا ہے، بلکہ اس سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ تمہارے علم و فضل (آگہی) پر مجھے کوئی شک نہیں۔ دراصل میں تصورات کی جس دنیا (عالم) میں رہتا ہوں وہ تمھاری فکری دنیا سے بہت مختلف ہے ۔ مجھ پر جو کیفیات طاری رہتی ہیں یعنی میں جس عالم میں رہتا ہوں اس میں کہی گئی باتیں اگر تم نہ سمجھ سکو تو اس میں تمھارا کوئی قصور نہیں۔ جس طرح عنقا کو اس کی بلندیٔ پرواز کے سبب پکڑ پانا محال ہے، اسی طرح میرے مطالب تک پہنچنا تمھارے لئے ممکن نہیں۔ یہاں موسی اور خضر کے قصہ کو یا مولانا روم اور شمس تبریز کے معاملہ کو ذہن میں رکھیں تو بات زیادہ واضح ہو جائے گی کہ غالب نے اس شعر میں کیا کہا ہے۔
محمّد آزم
اگر شعور نہ ہو تو بہشت ہے دنیا
بڑے عذاب میں گزری ہے آگہی کے ساتھ
اک زمانے تک بدن بے خواب بے آداب تھے
پھر اچانک اپنی عریانی کا اندازہ ہوا
خدا کا مطلب ہے خود میں آ تو خود آگہی ہے خدا شناسی
خدا کو خود سے جدا سمجھ کر بھٹک رہا ہے ادھر ادھر کیوں
جن سے زندہ ہو یقین و آگہی کی آبرو
عشق کی راہوں میں کچھ ایسے گماں کرتے چلو
یہی آئنہ ہے وہ آئینہ جو لئے ہے جلوۂ آگہی
یہ جو شاعری کا شعور ہے یہ پیمبری کی تلاش ہے
نہ پوچھئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیش بندگی سے گئے
اجالا علم کا پھیلا تو ہے چاروں طرف یارو
بصیرت آدمی کی کچھ مگر کم ہوتی جاتی ہے
-
موضوع : علم
جنوں کے کیف و کم سے آگہی تجھ کو نہیں ناصح
گزرتی ہے جو دیوانوں پہ دیوانے سمجھتے ہیں
آگہی بھولنے دیتی نہیں ہستی کا مآل
ٹوٹ کے خواب بکھرتا ہے تو ہنس دیتے ہیں
پہاڑ جیسی عظمتوں کا داخلہ تھا شہر میں
کہ لوگ آگہی کا اشتہار لے کے چل دیے
چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا
یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا
-
موضوع : چراغ
اس کار آگہی کو جنوں کہہ رہے ہیں لوگ
محفوظ کر رہے ہیں فضا میں صدائیں ہم
جیسے جیسے آگہی بڑھتی گئی ویسے ظہیرؔ
ذہن و دل اک دوسرے سے منفصل ہوتے گئے
ڈبوئے دیتا ہے خود آگہی کا بار مجھے
میں ڈھلتا نشہ ہوں موج طرب ابھار مجھے
کیا ہو سکے حساب کہ جب آگہی کہے
اب تک تو رائیگانی میں سارا سفر کیا
عروج ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمت انساں سے آگہی کم ہے
آگہی نے دیئے ابہام کے دھوکے کیا کیا
شرح الفاظ جو لکھی تو اشارے لکھے
جنوں کی خیر ہو تجھ کو اثرؔ ملا سب کچھ
یہ کیفیت بھی ضروری تھی آگہی کے لیے
ہم آگہی کو روتے ہیں اور آگہی ہمیں
وارفتگئ شوق کہاں لے چلی ہمیں