واعظ پر اشعار
واعظ کلاسیکی شاعری کا
ایک اہم کردار ہے جو شاعری کے اور دوسرے کرداروں جیسے رند ، ساقی اور عاشق کے مقابل آتا ہے ۔ واعظ انہیں پاکبازی اور پارسائی کی دعوت دیتا ہے ، شراب نوشی سے منع کرتا ہے ، مئے خانے سے ہٹا کر مسجد تک لے جانا چاہتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں بلکہ اس کا کردار خود دوغلے پن کا شکار ہوتا ہے ۔ وہ بھی چوری چھپے میخانے کی راہ لیتا ہے ۔ انہیں وجوہات کی بنیاد پر واعظ کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کا مزاق اڑا جایا جاتا ہے ۔ آپ کو یہ شاعری پسند آئے گی اور اندازہ ہوگا کہ کس طرح سے یہ شاعری سماج میں مذہبی شدت پسندی کو ایک ہموار سطح پر لانے میں مدد گار ثابت ہوئی ۔
کہاں مے خانہ کا دروازہ غالبؔ اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
-
موضوع : مے کدہ
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہیں ملا
ان کو مے خانے میں لے آؤ سنور جائیں گے
-
موضوع : مے کدہ
امید حور نے سب کچھ سکھا رکھا ہے واعظ کو
یہ حضرت دیکھنے میں سیدھے سادے بھولے بھالے ہیں
کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا
جوانی کو بچا سکتے تو ہیں ہر داغ سے واعظ
مگر ایسی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
-
موضوع : سچ
پی شوق سے واعظ ارے کیا بات ہے ڈر کی
دوزخ ترے قبضے میں ہے جنت ترے گھر کی
-
موضوع : شراب
گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد
یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے
-
موضوع : جنت
اپنی جنت مجھے دکھلا نہ سکا تو واعظ
کوچۂ یار میں چل دیکھ لے جنت میری
-
موضوع : جنت
تیری مسجد میں واعظ خاص ہیں اوقات رحمت کے
ہمارے مے کدے میں رات دن رحمت برستی ہے
مری شراب کی توبہ پہ جا نہ اے واعظ
نشے کی بات نہیں اعتبار کے قابل
منہ میں واعظ کے بھی بھر آتا ہے پانی اکثر
جب کبھی تذکرۂ جام شراب آتا ہے
-
موضوع : شراب
کہتے ہیں جس کو جنت وہ اک جھلک ہے تیری
سب واعظوں کی باقی رنگیں بیانیاں ہیں
آئیں ہیں سمجھانے لوگ
ہیں کتنے دیوانے لوگ
دھوکے سے پلا دی تھی اسے بھی کوئی دو گھونٹ
پہلے سے بہت نرم ہے واعظ کی زباں اب
واعظ مے طہور جو پینا ہے خلد میں
عادت ابھی سے ڈال رہا ہوں شراب کی
صنم پرستی کروں ترک کیوں کر اے واعظ
بتوں کا ذکر خدا کی کتاب میں دیکھا
واعظ کی آنکھیں کھل گئیں پیتے ہی ساقیا
یہ جام مے تھا یا کوئی دریائے نور تھا
-
موضوعات : ساقیاور 1 مزید
تشریف لاؤ کوچۂ رنداں میں واعظو
سیدھی سی راہ تم کو بتا دیں نجات کی
نہ واعظ ہجو کر ایک دن دنیا سے جانا ہے
ارے منہ ساقی کوثر کو بھی آخر دکھانا ہے
مجھے کافر ہی بتاتا ہے یہ واعظ کمبخت
میں نے بندوں میں کئی بار خدا کو دیکھا
نیاز بے خودی بہتر نماز خود نمائی سیں
نہ کر ہم پختہ مغزوں سیں خیال خام اے واعظ
تلخی تمہارے وعظ میں ہے واعظو مگر
دیکھو تو کس مزے کی ہے تلخی شراب میں
واعظ و محتسب کا جمگھٹ ہے
میکدہ اب تو میکدہ نہ رہا
-
موضوع : مے کدہ
کوئی علاج غم زندگی بتا واعظ
سنے ہوئے جو فسانے ہیں پھر سنا نہ مجھے
کیا مدرسے میں دہر کے الٹی ہوا بہی
واعظ نہی کو امر کہے امر کو نہی