Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bharat Bhushan Pant's Photo'

بھارت بھوشن پنت

1958 - 2019 | لکھنؤ, انڈیا

ہندوستان میں ہم عصر غزل کے ممتاز شاعر

ہندوستان میں ہم عصر غزل کے ممتاز شاعر

بھارت بھوشن پنت کے اشعار

11.5K
Favorite

باعتبار

گھر سے نکل کر جاتا ہوں میں روز کہاں

اک دن اپنا پیچھا کر کے دیکھا جائے

ایک جیسے لگ رہے ہیں اب سبھی چہرے مجھے

ہوش کی یہ انتہا ہے یا بہت نشے میں ہوں

ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی

رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے

بس ذرا اک آئنے کے ٹوٹنے کی دیر تھی

اور میں باہر سے اندر کی طرح لگنے لگا

خاموشی میں چاہے جتنا بیگانہ پن ہو

لیکن اک آہٹ جانی پہچانی ہوتی ہے

سبب خاموشیوں کا میں نہیں تھا

مرے گھر میں سبھی کم بولتے تھے

یاد بھی آتا نہیں کچھ بھولتا بھی کچھ نہیں

یا بہت مصروف ہوں میں یا بہت فرصت میں ہوں

کتنا آسان تھا بچپن میں سلانا ہم کو

نیند آ جاتی تھی پریوں کی کہانی سن کر

اس طرح تو اور بھی دیوانگی بڑھ جائے گی

پاگلوں کو پاگلوں سے دور رہنا چاہئے

جانے کتنے لوگ شامل تھے مری تخلیق میں

میں تو بس الفاظ میں تھا شاعری میں کون تھا

ہماری بات کسی کی سمجھ میں کیوں آتی

خود اپنی بات کو کتنا سمجھ رہے ہیں ہم

اس کو بھی میری طرح اپنی وفا پر تھا یقیں

وہ بھی شاید اسی دھوکے میں ملا تھا مجھ کو

ہر گھڑی تیرا تصور ہر نفس تیرا خیال

اس طرح تو اور بھی تیری کمی بڑھ جائے گی

ہم کافروں نے شوق میں روزہ تو رکھ لیا

اب حوصلہ بڑھانے کو افطار بھی تو ہو

ہمارے حال پہ اب چھوڑ دے ہمیں دنیا

یہ بار بار ہمیں کیوں بتانا پڑتا ہے

تو ہمیشہ مانگتا رہتا ہے کیوں غم سے نجات

غم نہیں ہوں گے تو کیا تیری خوشی بڑھ جائے گی

اب تو اتنی بار ہم رستے میں ٹھوکر کھا چکے

اب تو ہم کو بھی وہ پتھر دیکھ لینا چاہئے

اتنا تو سمجھتے تھے ہم بھی اس کی مجبوری

انتظار تھا لیکن در کھلا نہیں رکھا

میں اپنے لفظ یوں باتوں میں ضائع کر نہیں سکتا

مجھے جو کچھ بھی کہنا ہے اسے شعروں میں کہتا ہوں

یہ سورج کب نکلتا ہے انہیں سے پوچھنا ہوگا

سحر ہونے سے پہلے ہی جو بستر چھوڑ دیتے ہیں

میں اب جو ہر کسی سے اجنبی سا پیش آتا ہوں

مجھے اپنے سے یہ وابستگی مجبور کرتی ہے

شاید بتا دیا تھا کسی نے مرا پتہ

میلوں مری تلاش میں رستہ نکل گیا

کچھ خبروں سے اتنی وحشت ہوتی ہے

ہاتھوں سے اخبار الجھنے لگتے ہیں

اتنی سی بات رات پتہ بھی نہیں لگی

کب بجھ گئے چراغ ہوا بھی نہیں لگی

ہم وہ صحرا کے مسافر ہیں ابھی تک جن کی

پیاس بجھتی ہے سرابوں کی کہانی سن کر

آنکھوں میں ایک بار ابھرنے کی دیر تھی

پھر آنسوؤں نے آپ ہی رستے بنا لیے

یہ سب تو دنیا میں ہوتا رہتا ہے

ہم خود سے بیکار الجھنے لگتے ہیں

یہ کیا کہ روز پہنچ جاتا ہوں میں گھر اپنے

اب اپنی جیب میں اپنا پتہ نہ رکھا جائے

اسے اک بت کے آگے سر جھکاتے سب نے دیکھا ہے

وہ کافر ہی سہی پکا مگر ایمان رکھتا ہے

میں تھوڑی دیر بھی آنکھوں کو اپنی بند کر لوں تو

اندھیروں میں مجھے اک روشنی محسوس ہوتی ہے

کہیں جیسے میں کوئی چیز رکھ کر بھول جاتا ہوں

پہن لیتا ہوں جب دستار تو سر بھول جاتا ہوں

یہ کیا کہ روز ابھرتے ہو روز ڈوبتے ہو

تم ایک بار میں غرقاب کیوں نہیں ہوتے

امیدوں سے پردہ رکھا خوشیوں سے محروم رہیں

خواب مرا تو چالس دن تک سوگ منایا آنکھوں نے

دامن کے چاک سینے کو بیٹھے ہیں جب بھی ہم

کیوں بار بار سوئی سے دھاگا نکل گیا

ورنہ تو ہم منظر اور پس منظر میں الجھے رہتے

ہم نے بھی سچ مان لیا جو کچھ دکھلایا آنکھوں نے

سورج سے اس کا نام و نسب پوچھتا تھا میں

اترا نہیں ہے رات کا نشہ ابھی تلک

ہم سرابوں میں ہوئے داخل تو یہ ہم پر کھلا

تشنگی سب میں تھی لیکن تشنگی میں کون تھا

میں نے مانا ایک گہر ہوں پھر بھی صدف میں ہوں

مجھ کو آخر یوں ہی گھٹ کر کب تک رہنا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے