دید کی تمنا میں آنکھ بھر کے روئے تھے
دید کی تمنا میں آنکھ بھر کے روئے تھے
ہم بھی ایک چہرے کو یاد کر کے روئے تھے
سامنے تو لوگوں کے غم چھپا لئے اپنے
اور جب ہوئے تنہا ہم بکھر کے روئے تھے
ہم سے ان اندھیروں کو کس لیے شکایت ہے
ہم تو خود چراغوں کی لو کتر کے روئے تھے
جب تلک تھے کشتی پر خود کو روک رکھا تھا
ساحلوں پہ آتے ہی ہم اتر کے روئے تھے
آئنے میں روتا وہ عکس بھی ہمارا تھا
جس کو دیکھ کر اکثر ہم بپھر کے روئے تھے
یاد ہے ابھی تک وہ ایک شام بچپن کی
جانے کیا ہوا تھا سب لوگ گھر کے روئے تھے
ساحلوں پہ آتی ہے آج بھی صدا ان کی
ڈوبنے سے کچھ پہلے جو ابھر کے روئے تھے
ہر طرف تھی خاموشی اور ایسی خاموشی
رات اپنے سائے سے ہم بھی ڈر کے روئے تھے
تب پتا چلا ہم کو زخم کتنے گہرے ہیں
درد کے نشیبوں میں جب اتر کے روئے تھے
ہم نے اپنی آنکھوں سے حادثہ وہ دیکھا تھا
پتھروں کی بستی میں زخم سر کے روئے تھے
- کتاب : Bechehragi (Pg. 107)
- Author : bharat bhushan pant
- مطبع : Suman prakashan Alambagh,Lucknow (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.