Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

راز پر اشعار

راز کو چھپانے اور بالآخر

اس کے آشکار ہوجانے کے درمیان کی جن کیفیتوں کو شعرا نے موضوع بنایا ہے وہ بہت دلچسپ اور بہت نازک ہیں ۔ یہ شاعری ہمیں فن کار کے تخیل کی باریکیوں کا قائل بھی کرتی ہے اور کلاسیکی شاعری میں عاشق کی شخصیت کے تصور سے متعارف بھی کراتی ہے۔

غیروں پہ کھل نہ جائے کہیں راز دیکھنا

میری طرف بھی غمزۂ غماز دیکھنا

مومن خاں مومن

یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ

تمہارا راز تمہیں سے چھپا رہا ہوں میں

اسرار الحق مجاز

جن کو اپنی خبر نہیں اب تک

وہ مرے دل کا راز کیا جانیں

داغؔ دہلوی

کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن

جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن

فنا نظامی کانپوری

دامن اشکوں سے تر کریں کیوں کر

راز کو مشتہر کریں کیوں کر

مبارک عظیم آبادی

اپنا ہی حال تک نہ کھلا مجھ کو تابہ مرگ

میں کون ہوں کہاں سے چلا تھا کہاں گیا

حیرت الہ آبادی

ہائے وہ راز غم کہ جو اب تک

تیرے دل میں مری نگاہ میں ہے

جگر مراد آبادی

بہ پاس دل جسے اپنے لبوں سے بھی چھپایا تھا

مرا وہ راز تیرے ہجر نے پہنچا دیا سب تک

قتیل شفائی

تیرا ہر راز چھپائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی

خود کو دیوانہ بنائے ہوئے بیٹھا ہے کوئی

اختر صدیقی

ہر صدا پر لگے ہیں کان یہاں

دل سنبھالے رہو زباں کی طرح

فیض احمد فیض

دفن کر سکتا ہوں سینے میں تمہارے راز کو

اور تم چاہو تو افسانہ بنا سکتا ہوں میں

اسرار الحق مجاز

میں محبت نہ چھپاؤں تو عداوت نہ چھپا

نہ یہی راز میں اب ہے نہ وہی راز میں ہے

کلیم عاجز

کوئی کس طرح راز الفت چھپائے

نگاہیں ملیں اور قدم ڈگمگائے

نخشب جارچوی

ان سے سب حال دغاباز کہے دیتے ہیں

میرے ہم راز مرا راز کہے دیتے ہیں

نوح ناروی

زبان و دہن سے جو کھلتے نہیں ہیں

وہ کھل جاتے ہیں راز اکثر نظر سے

امن لکھنوی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے