کانٹا پر اشعار
کانٹے پھولوں کے مقابلے
میں ساری متضاد صفات رکھتے ہیں ۔ وہ سخت ہوتے ہیں ، بد صورت ہوتے ہیں ، چبھ کر تکلیف پہنچاتے ہیں لیکن ان کا یہ سارا کردار ظاہر ہوتاہے ۔ اس میں کوئی دوغلہ پن نہیں ہوتا وہ پھولوں کی طرح اپنی ظاہری چمک دمک سے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتے ۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے موضوعات ہمارے منتخب کردہ ان شعروں میں نظر آئیں گے ۔ ان شعروں میں آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ کس طرح پھول اور کانٹوں کے بارے ہمارے عمومی تصورات ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ساتھ ہی یہ بھی محسوس کریں گےکہ کس طرح پھول اور کانٹوں کا استعارہ زندگی کی کتنی متنوع جہتوں کو سموئے ہوئے ہے ۔
نہ ہم سفر نہ کسی ہم نشیں سے نکلے گا
ہمارے پاؤں کا کانٹا ہمیں سے نکلے گا
-
موضوع : ترغیبی
ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے اکثر
لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں
لوگ کانٹوں سے بچ کے چلتے ہیں
میں نے پھولوں سے زخم کھائے ہیں
کانٹوں سے گزر جاتا ہوں دامن کو بچا کر
پھولوں کی سیاست سے میں بیگانہ نہیں ہوں
-
موضوعات : پھولاور 1 مزید
کانٹوں سے دل لگاؤ جو تا عمر ساتھ دیں
پھولوں کا کیا جو سانس کی گرمی نہ سہ سکیں
بہت حسین سہی صحبتیں گلوں کی مگر
وہ زندگی ہے جو کانٹوں کے درمیاں گزرے
-
موضوع : زندگی
پھول کر لے نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے
کوئی سمجھے گا کیا راز گلشن
جب تک الجھے نہ کانٹوں سے دامن
-
موضوعات : رازاور 2 مزید
کانٹے تو خیر کانٹے ہیں اس کا گلہ ہی کیا
پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا
-
موضوعات : پھولاور 1 مزید
خار حسرت بیان سے نکلا
دل کا کانٹا زبان سے نکلا
-
موضوع : دل
گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں
پھولوں کی تازگی ہی نہیں دیکھنے کی چیز
کانٹوں کی سمت بھی تو نگاہیں اٹھا کے دیکھ
-
موضوع : پھول
کانٹوں پہ چلے ہیں تو کہیں پھول کھلے ہیں
پھولوں سے ملے ہیں تو بڑی چوٹ لگی ہے
-
موضوع : پھول
زخم بگڑے تو بدن کاٹ کے پھینک
ورنہ کانٹا بھی محبت سے نکال
رک گیا ہاتھ ترا کیوں باصرؔ
کوئی کانٹا تو نہ تھا پھولوں میں
-
موضوع : پھول
کانٹا سا جو چبھا تھا وہ لو دے گیا ہے کیا
گھلتا ہوا لہو میں یہ خورشید سا ہے کیا
کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گل
یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا دیا
نہیں کانٹے بھی کیا اجڑے چمن میں
کوئی روکے مجھے میں جا رہا ہوں
کانٹا ہوا ہوں سوکھ کے یاں تک کہ اب سنار
کانٹے میں تولتے ہیں مرے استخواں کا بوجھ