رند پر اشعار
اردو کی کلاسیکی شاعری
میں جو بنیادی لفظیات ہیں ان میں سے ایک رند بھی ہے ۔ عاشق شرابِ عشق سے سرشار ہوتا ہے اور اس کی کیفیت رندوں والی ہوتی ہے ۔ رندی کا ایک تصور تصوف سے بھی جا ملتا ہے ۔یہ آپ ہمارے اس انتخاب میں ایک رند عاشق کی کتھا پڑھیں گے ۔
ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی
ترا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے
-
موضوعات : راتاور 2 مزید
رند جو ظرف اٹھا لیں وہی ساغر بن جائے
جس جگہ بیٹھ کے پی لیں وہی مے خانہ بنے
-
موضوع : مے کدہ
رند مسجد میں گئے تو انگلیاں اٹھنے لگیں
کھل اٹھے میکش کبھی زاہد جو ان میں آ گئے
مے کدہ ہے شیخ صاحب یہ کوئی مسجد نہیں
آپ شاید آئے ہیں رندوں کے بہکائے ہوئے
بیٹھتا ہے ہمیشہ رندوں میں
کہیں زاہد ولی نہ ہو جائے
ابھی آتے نہیں اس رند کو آداب مے خانہ
جو اپنی تشنگی کو فیض ساقی کی کمی سمجھے
واعظ خطا معاف کہ رندان مے کدہ
دل کے سوا کسی کا کہا مانتے نہیں
مے نہ ہو بو ہی سہی کچھ تو ہو رندوں کے لئے
اسی حیلہ سے بجھے گی ہوس جام شراب
-
موضوع : شراب
رندوں کو وعظ پند نہ کر فصل گل میں شیخ
ایسا نہ ہو شراب اڑے خانقاہ میں
رند مشرب کوئی بیخودؔ سا نہ ہوگا واللہ
پی کے مسجد ہی میں یہ خانہ خراب آتا ہے
واعظو چھیڑو نہ رندوں کو بہت
یہ سمجھ لو کہ پیے بیٹھے ہیں
توبہ کی رندوں میں گنجائش کہاں
جب یہ آئے گی نکالی جائے گی
-
موضوع : توبہ
رندوں کو پابندیٔ دنیا کہاں
کشتیٔ مے کو نہیں لنگر کی چاہ
کچھ طرح رندوں نے دی کچھ محتسب بھی دب گیا
چھیڑ آپس میں سر بازار ہو کر رہ گئی
یہ رند دے گئے لقمہ تجھے تو عذر نہ مان
ترا تو شیخ تنور و شکم برابر ہے