التجا پر اشعار
التجا کا تناظر محبوب
سے وصال، اس سے ملاقات یا اس کی ایک جھلک پا لینے کی خواہش سے جڑا ہے ۔ شاعری میں موجود عاشق ہرلمحہ یہی التجا اور فریاد کرتا رہتا ہے لیکن وہ بتِ کافر سنے ہی کیوں ۔ شاعری کا یہ حصہ ایک عاشق کی آرزومندی کی لطیف ترین کیفیتوں کا دلچسپ اظہار ہے ۔
گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
تشریح
اس شعر کا مزاج غزل کے رویتی مزاج سے ملتا ہے۔ چونکہ فیض نے ترقی پسند فکر کی ترجمانی میں بھی اردو شعریات کی روایت کا پورا لحاظ رکھا لہٰذا ان کی تخلیقات میں اگرچہ علامتی سطح پر ترقی پسند سوچ کی کارفرمائی دکھائی دیتی ہے تاہم ان کی شعری دنیا میں اور بھی امکانات موجود ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال یہ مشہور شعر ہے۔ بادِ نو بہار کے معنی نئی بہار کی ہواہے۔ پہلے اس شعر کی تشریح ترقی پسند فکر کو مدِ نظر کرتے ہیں۔ فیض کی شکایت یہ رہی ہے کہ انقلاب رونما ہونے کے باوجود استحصال کی چکی میں پسنے والوں کی تقدیر نہیں بدلتی ۔ اس شعر میں اگر بادِ نو بہار کو انقلاب کی علامت مان لیا جائے تو شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ گلشن (ملک، زمانہ وغیرہ) کا کاروبار تب تک نہیں چل سکتا جب تک کہ انقلاب اپنے صحیح معنوں میں نہیں آتا۔ اسی لئے وہ انقلاب یا بدلاؤ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ جب تم رونما ہوجاؤ گے تب پھولوں میں نئی بہار کی ہوا تازگی لائی گی۔ اور اس طرح سے چمن کا کاروبار چلے گا۔ دوسرے معنوں میں وہ اپنے محبوب سے کہتے ہیں کہ تم اب آ بھی جاؤ تاکہ گلوں میں نئی بہار کی ہوا رنگ بھرے اور چمن کھل اٹھے۔
شفق سوپوری
-
موضوعات : استقبالاور 3 مزید
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
کہیں وہ آ کے مٹا دیں نہ انتظار کا لطف
کہیں قبول نہ ہو جائے التجا میری
اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمہاری خاطر
اتنی دور آ گئے دنیا سے کنارا کرتے
آؤ مل جاؤ کہ یہ وقت نہ پاؤ گے کبھی
میں بھی ہمراہ زمانہ کے بدل جاؤں گا
مانی ہیں میں نے سیکڑوں باتیں تمام عمر
آج آپ ایک بات مری مان جائیے
میرے گھر کے تمام دروازے
تم سے کرتے ہیں پیار آ جاؤ
نہ درویشوں کا خرقہ چاہیئے نہ تاج شاہانا
مجھے تو ہوش دے اتنا رہوں میں تجھ پہ دیوانا
ستم ہی کرنا جفا ہی کرنا نگاہ الفت کبھی نہ کرنا
تمہیں قسم ہے ہمارے سر کی ہمارے حق میں کمی نہ کرنا
بہت دور تو کچھ نہیں گھر مرا
چلے آؤ اک دن ٹہلتے ہوئے
قبول اس بارگہہ میں التجا کوئی نہیں ہوتی
الٰہی یا مجھی کو التجا کرنا نہیں آتا
عشق میں شکوہ کفر ہے اور ہر التجا حرام
توڑ دے کاسۂ مراد عشق گداگری نہیں
-
موضوع : شکوہ
عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر
دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر
-
موضوعات : دلاور 1 مزید
اب تو آ جاؤ رسم دنیا کی
میں نے دیوار بھی گرا دی ہے