اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک
میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں
طوفاں اٹھا رہا ہے مرے دل میں سیل اشک
وہ دن خدا نہ لائے جو میں آب دیدہ ہوں
ان کی یاد میں بہتے آنسو خشک اگر ہو جائیں گے
سات سمندر اپنی خالی آنکھوں میں بھر لاؤں گا
رونے تلک تو کس کو ہے فرصت یہاں سحاب
طوفاں ہوا بھی جو ٹک اک آب دیدہ ہوں
طوفان جہل نے مرا جوہر مٹا دیا
میں اک کتاب خوب ہوں پر آب دیدہ ہوں
کیوں کھلونے ٹوٹنے پر آب دیدہ ہو گئے
اب تمہیں ہم کیا بتائیں کیا پریشانی ہوئی
واں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے
جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو
ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث
آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے
جھلملاتے رہے وہ خواب جو پورے نہ ہوئے
درد بیدار ٹپکتا رہا آنسو آنسو
اے ساکنان چرخ معلی بچو بچو
طوفاں ہوا بلند مرے آب دیدہ کا
وہاں اب خواب گاہیں بن گئی ہیں
اٹھے تھے آب دیدہ ہم جہاں سے
اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں
دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے
ہم تیری طبیعت کو خورشیدؔ نہیں سمجھے
پتھر نظر آتا تھا رویا تو بہت رویا
وقت رخصت آب دیدہ آپ کیوں ہیں
جسم سے تو جاں ہماری جا رہی ہے
آب دیدہ ہوں میں خود زخم جگر سے اپنے
تیری آنکھوں میں چھپا درد کہاں سے دیکھوں
کون اٹھ گیا ہے پاس سے میرے جو مصحفیؔ
روتا ہوں زار زار پڑا آب دیدہ ہوں
رونا ہے اگر یہی تو قائمؔ
اک خلق کو ہم ڈبا رہے ہیں
یہ آب دیدہ ٹھہر جائے جھیل کی صورت
کہ ایک چاند کا ٹکڑا نہانا چاہتا ہے
میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں
پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں
-
موضوعات : آنسواور 3 مزید
کپڑے گلے کے میرے نہ ہوں آب دیدہ کیوں
مانند ابر دیدۂ تر اب تو چھا گیا
ہم عشق تیرے ہاتھ سے کیا کیا نہ دیکھیں حالتیں
دیکھ آب دیدہ خوں نہ ہو خون جگر پانی نہ کر
سیلاب چشم تر سے زمانہ خراب ہے
شکوے کہاں کہاں ہیں مرے آب دیدہ کے