گریہ و زاری پر اشعار
گریہ وزاری عاشق کا ایک
مستقل مشغلہ ہے ، وہ ہجر میں روتا ہی رہتا ہے ۔ رونے کے اس عمل میں آنسوختم ہوجاتے ہیں اور خون چھلکنے لگتا ہے ۔یہاں جو شاعری آپ پڑھیں گے وہ ایک دکھے ہوئے اور غم زدہ دل کی کتھا ہے ۔
رات دن جاری ہیں کچھ پیدا نہیں ان کا کنار
میرے چشموں کا دو آبا مجمع البحرین ہے
روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات
اب یہی روزگار ہے اپنا
احوال دیکھ کر مری چشم پر آب کا
دریا سے آج ٹوٹ گیا دل حباب کا
سن کے ہر سمت سسکیاں میں نے
جانے کیوں کر لیں دوریاں میں نے
نکل گئے ہیں جو بادل برسنے والے تھے
یہ شہر آب کو ترسے گا چشم تر کے بغیر
کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
رونے پہ اگر آؤں تو دریا کو ڈبو دوں
قطرہ کوئی سمجھے نہ مرے دیدۂ نم کو
میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں
پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں
-
موضوعات : آب دیدہاور 3 مزید
ضبط گریہ کبھی کرتا ہوں تو فرماتے ہیں
آج کیا بات ہے برسات نہیں ہوتی ہے
آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے
دو کشتیاں ملی ہیں ڈبونے کے واسطے