آشفتہ چنگیزی
غزل 33
نظم 14
اشعار 36
ہمیں بھی آج ہی کرنا تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب وعدے بھول جانے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
کس کی تلاش ہے ہمیں کس کے اثر میں ہیں
جب سے چلے ہیں گھر سے مسلسل سفر میں ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں
جواب آج بھی ہم سوچ کر نہیں آئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تجھ سے بچھڑنا کوئی نیا حادثہ نہیں
ایسے ہزاروں قصے ہماری خبر میں ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
برا مت مان اتنا حوصلہ اچھا نہیں لگتا
یہ اٹھتے بیٹھتے ذکر وفا اچھا نہیں لگتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 8
جس سے مل بیٹھے لگی وہ شکل پہچانی ہوئی آج تک ہم سے یہی بس ایک نادانی ہوئی سیکڑوں پردے اٹھا لائے تھے ہم بازار سے گتھیاں کچھ اور الجھیں اور حیرانی ہوئی ہم تو سمجھے تھے کہ اس سے فاصلے مٹ جائیں_گے خود کو ظاہر بھی کیا لیکن پشیمانی ہوئی کیا بتائیں فکر کیا ہے اور کیا ہے جستجو ہاں طبیعت دن_بہ_دن اپنی بھی سیلانی ہوئی کیوں کھلونے ٹوٹنے پر آب_دیدہ ہو گئے اب تمہیں ہم کیا بتائیں کیا پریشانی ہوئی
اتنا کیوں شرماتے ہیں وعدے آخر وعدے ہیں لکھا لکھایا دھو ڈالا سارے ورق پھر سادے ہیں تجھ کو بھی کیوں یاد رکھا سوچ کے اب پچھتاتے ہیں ریت محل دو چار بچے یہ بھی گرنے والے ہیں جائیں کہیں بھی تجھ کو کیا شہر سے تیرے جاتے ہیں گھر کے اندر جانے کے اور کئی دروازے ہیں انگلی پکڑ کے ساتھ چلے دوڑ میں ہم سے آگے ہیں