لب پر اشعار
محبوب کے لبوں کی تعریف
وتحسین اور ان سے شکوہ شکایت شاعری میں عام ہے ۔ لبوں کی خوبصورتی اور ان کی نازکی کے مضمون کو شاعروں نے نئے نئے دڈھنگ سے باندھا ہے ۔ لبوں کے شعری بیان میں ایک پہلو یہ بھی رہا ہے کہ ان پر ایک گہری چپ پڑی ہوئی ہے ، وہ ہلتے نہیں عاشق سے بات نہیں کرتے ۔ یہ لب کہیں گلاب کی پنکھڑی کی طرح نازک ہیں تو کہیں ان سے پھول جھڑتے ہیں ۔اس مضمون میں اور بھی کئی دلچسپ پہلو ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
نازکی اس کے لب کی کیا کہئے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
تشریح
میر اپنی سہل شاعری میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ جس سہولت سچائی اور آسانی کے ساتھ وہ مضامین کو بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں اس کی مثال مشکل ہی سے ملتی ہے۔
اس شعر میں میر نے بڑی معصومیت اور سادگی کے ساتھ اپنے محبوب کے حسن کی تعریف بیان کی ہے۔ ظاہر ہے کہ حسن کی تعریف کے بیان میں محبوب کے ہونٹوں کا بیان بہت اہم شے ہے۔ میر اپنے محبوب کے ہونٹوں کی نازکی ملائمیت یا softness کو بیان کرتے ہوئے تشبیہ دیتے ہیں اور وہ تشبیہ گلاب کے پھول کی پنکھڑی سے دیتے ہیں۔ گلاب کی پنکھڑی بہت نازک ہوتی ہیں، بہت نرم ہوتی ہیں اتنی نرم اور اتنی نازک ہوتی ہیں کہ میر کو اپنے محبوب کے ہونٹوں کی بناوٹ بالکل گلاب کی پنکھڑی کی مانند نظر آتی ہے ۔petals of the rose انتہائی مناسب تشبیہ ہے، جو محبوب کے ہونٹوں کے لیے دی جاسکتی ہے اور میر نے اس مناسب ترین تشبیہ کا استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ اُپما کے چناؤ میں بھی ان کا کوئی بدل نہیں ہے ۔
آسان لفظوں میں کہا جائے تو بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ میر اپنے محبوب کے ہونٹوں کو گلاب کی پنکھڑی کی طرح محسوس کرتے ہیں اس کی نازکی کی یا اس کی ملائمیت یا softness کی وجہ سے اور اس طرح اس تشبیہ نے محبوب کے حسن کا بہترین نقشہ کھینچ دیا ہے۔
سہیل آزاد
-
موضوع : مشہور اشعار
شوق ہے اس دل درندہ کو
آپ کے ہونٹ کاٹ کھانے کا
اس کے ہونٹوں پہ رکھ کے ہونٹ اپنے
بات ہی ہم تمام کر رہے ہیں
کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ
ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے
-
موضوع : سوال
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ
-
موضوعات : روماناور 4 مزید
تجھ سا کوئی جہان میں نازک بدن کہاں
یہ پنکھڑی سے ہونٹ یہ گل سا بدن کہاں
ایک دم اس کے ہونٹ چوم لیے
یہ مجھے بیٹھے بیٹھے کیا سوجھی
خدا کو مان کہ تجھ لب کے چومنے کے سوا
کوئی علاج نہیں آج کی اداسی کا
مسکرائے بغیر بھی وہ ہونٹ
نظر آتے ہیں مسکرائے ہوئے
ترے لبوں کو ملی ہے شگفتگی گل کی
ہماری آنکھ کے حصے میں جھرنے آئے ہیں
ان لبوں نے نہ کی مسیحائی
ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا
آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار
لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر
-
موضوعات : بوسہاور 1 مزید
بجھے لبوں پہ ہے بوسوں کی راکھ بکھری ہوئی
میں اس بہار میں یہ راکھ بھی اڑا دوں گا
-
موضوع : بوسہ
ہونٹوں پر اک بار سجا کر اپنے ہونٹ
اس کے بعد نہ باتیں کرنا سو جانا
کانپتے ہونٹ بھیگتی پلکیں
بات ادھوری ہی چھوڑ دیتا ہوں
اشک آنکھوں سے مری نکلے مسلسل لیکن
اس نے اک حرف تسلی نہ نکالا لب سے
غرور تشنہ دہانی تری بقا کی قسم
ندی ہمارے لبوں کی طرف اچھلتی رہی
-
موضوع : دریا