بچپن شاعری پر اشعار
فن کارکی سب سے بڑی قوت
اس کا تخیل ہوتا ہے ۔ وہ اسی کے سہارے نئے جہانوں کی سیرکرتا ہے اورگزرے ہوئے وقت کی کیفیتوں کو پوری شدت کے ساتھ تخلیقی بساط پر پھیلاتا ہے ۔ بچپن ، اس کےجذبات واحساسات اوراس کی معصومیت کا جوایک سچا اظہار شاعری میں نظرآتا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے ۔ ہم بچپن اوراس کی کیفیتوں کومحسوس کرسکتے ہیں لیکن زبان نہیں دے سکتے ، بچپن کو موضوع بنانے والی یہ شاعری ہمارے اسی عجز کا بدل ہے ۔
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
-
موضوع : ترغیبی
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے
میرے رونے کا جس میں قصہ ہے
عمر کا بہترین حصہ ہے
میرا بچپن بھی ساتھ لے آیا
گاؤں سے جب بھی آ گیا کوئی
-
موضوع : گاؤں
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
دعائیں یاد کرا دی گئی تھیں بچپن میں
سو زخم کھاتے رہے اور دعا دئیے گئے ہم
-
موضوع : دعا
کتابوں سے نکل کر تتلیاں غزلیں سناتی ہیں
ٹفن رکھتی ہے میری ماں تو بستہ مسکراتا ہے
جمالؔ ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے
-
موضوع : ناسٹلجیا
ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے
صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے
بھوک چہروں پہ لیے چاند سے پیارے بچے
بیچتے پھرتے ہیں گلیوں میں غبارے بچے
-
موضوع : مفلسی
اسیر پنجۂ عہد شباب کر کے مجھے
کہاں گیا مرا بچپن خراب کر کے مجھے
-
موضوع : ناسٹلجیا
بڑی حسرت سے انساں بچپنے کو یاد کرتا ہے
یہ پھل پک کر دوبارہ چاہتا ہے خام ہو جائے
چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں
بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے
میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا
مرے انجام کی وہ ابتدا تھی
بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی
وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے
فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا
جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا
اب تک ہماری عمر کا بچپن نہیں گیا
گھر سے چلے تھے جیب کے پیسے گرا دیے
جس کے لئے بچہ رویا تھا اور پونچھے تھے آنسو بابا نے
وہ بچہ اب بھی زندہ ہے وہ مہنگا کھلونا ٹوٹ گیا
اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈھتا پھرا اس کو وہ نگر نگر تنہا
ایک ہاتھی ایک راجہ ایک رانی کے بغیر
نیند بچوں کو نہیں آتی کہانی کے بغیر
اپنے بچوں کو میں باتوں میں لگا لیتا ہوں
جب بھی آواز لگاتا ہے کھلونے والا
ساتوں عالم سر کرنے کے بعد اک دن کی چھٹی لے کر
گھر میں چڑیوں کے گانے پر بچوں کی حیرانی دیکھو
محلے والے میرے کار بے مصرف پہ ہنستے ہیں
میں بچوں کے لیے گلیوں میں غبارے بناتا ہوں