Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مزدور پر اشعار

شعر وادب کے سماجی سروکار

بھی بہت واضح رہے ہیں اور شاعروں نے ابتدا ہی سے اپنے آس پاس کے مسائل کو شاعری کا حصہ بنایا ہے البتہ ایک دور ایسا آیا جب شاعری کو سماجی انقلاب کے ایک ذریعے کے طور پر اختیار کیا گیا اور سماج کے نچلے، گر پڑے اور مزدور طبقے کے مسائل کا اظہار شاعری کا بنیادی موضوع بن گیا ۔آپ ان شعروں میں دیکھیں گے کہ مزدور طبقہ زندگی کرنے کے عمل میں کس کرب اور دکھ سے گزرتا ہے اور اس کی سماجی حثیت کیا ہے ۔ مزدوروں پر کی جانے والی شاعری کی اور بھی کئی جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔

سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر

مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے

منور رانا

فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

منور رانا

کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا

یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں

احمد سلمان

آنے والے جانے والے ہر زمانے کے لیے

آدمی مزدور ہے راہیں بنانے کے لیے

حفیظ جالندھری

شہر میں مزدور جیسا در بدر کوئی نہیں

جس نے سب کے گھر بنائے اوس کا گھر کوئی نہیں

نامعلوم

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

علامہ اقبال

نیند آئے گی بھلا کیسے اسے شام کے بعد

روٹیاں بھی نہ میسر ہوں جسے کام کے بعد

اظہر اقبال

محنت کر کے ہم تو آخر بھوکے بھی سو جائیں گے

یا مولا تو برکت رکھنا بچوں کی گڑ دھانی میں

ولاس پنڈت مسافر

بوجھ اٹھانا شوق کہاں ہے مجبوری کا سودا ہے

رہتے رہتے اسٹیشن پر لوگ قلی ہو جاتے ہیں

منور رانا

ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے

مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے

جمیلؔ مظہری

تعمیر و ترقی والے ہیں کہیے بھی تو ان کو کیا کہیے

جو شیش محل میں بیٹھے ہوئے مزدور کی باتیں کرتے ہیں

عبید الرحمان

لوگوں نے آرام کیا اور چھٹی پوری کی

یکم مئی کو بھی مزدوروں نے مزدوری کی

افضل خان

پیڑ کے نیچے ذرا سی چھاؤں جو اس کو ملی

سو گیا مزدور تن پر بوریا اوڑھے ہوئے

شارب مورانوی

مل مالک کے کتے بھی چربیلے ہیں

لیکن مزدوروں کے چہرے پیلے ہیں

تنویر سپرا

تیری تابش سے روشن ہیں گل بھی اور ویرانے بھی

کیا تو بھی اس ہنستی گاتی دنیا کا مزدور ہے چاند؟

شبنم رومانی

میں نے انورؔ اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی

وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ

انور مسعود

زندگی اب اس قدر سفاک ہو جائے گی کیا

بھوک ہی مزدور کی خوراک ہو جائے گی کیا

رضا مورانوی

اب ان کی خواب گاہوں میں کوئی آواز مت کرنا

بہت تھک ہار کر فٹ پاتھ پر مزدور سوئے ہیں

نفس انبالوی

پسینہ میری محنت کا مرے ماتھے پہ روشن تھا

چمک لعل و جواہر کی مری ٹھوکر پہ رکھی تھی

ناظر صدیقی

دولت کا فلک توڑ کے عالم کی جبیں پر

مزدور کی قسمت کے ستارے نکل آئے

نشور واحدی

خون مزدور کا ملتا جو نہ تعمیروں میں

نہ حویلی نہ محل اور نہ کوئی گھر ہوتا

حیدر علی جعفری

میں اک مزدور ہوں روٹی کی خاطر بوجھ اٹھاتا ہوں

مری قسمت ہے بار حکمرانی پشت پر رکھنا

احتشام الحق صدیقی

بلاتے ہیں ہمیں محنت کشوں کے ہاتھ کے چھالے

چلو محتاج کے منہ میں نوالہ رکھ دیا جائے

رضا مورانوی

سروں پہ اوڑھ کے مزدور دھوپ کی چادر

خود اپنے سر پہ اسے سائباں سمجھنے لگے

شارب مورانوی

تری زمین پہ کرتا رہا ہوں مزدوری

ہے سوکھنے کو پسینہ معاوضہ ہے کہاں

عاصم واسطی

پھوٹنے والی ہے مزدور کے ماتھے سے کرن

سرخ پرچم افق صبح پہ لہراتے ہیں

علی سردار جعفری

غریبوں پر تو موسم بھی حکومت کرتے رہتے ہیں

کبھی بارش کبھی گرمی کبھی ٹھنڈک کا قبضہ ہے

منور رانا

اس لیے سب سے الگ ہے مری خوشبو عامیؔ

مشک مزدور پسینے میں لیے پھرتا ہوں

عمران عامی

انہی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھے ہیں وہ آنسو بھی

جو اکثر دھوپ میں محنت کی پیشانی سے ڈھلتے ہیں

جمیلؔ مظہری

میں کہ ایک محنت کش میں کہ تیرگی دشمن

صبح نو عبارت ہے میرے مسکرانے سے

مجروح سلطانپوری

ہم ہیں مزدور ہمیں کون سہارا دے گا

ہم تو مٹ کر بھی سہارا نہیں مانگا کرتے

راہی شہابی

اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط

اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے

تنویر سپرا

دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں

خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے

منموہن تلخ

لے کے تیشہ اٹھا ہے پھر مزدور

ڈھل رہے ہیں جبل مشینوں میں

وامق جونپوری

آج بھی سپراؔ اس کی خوشبو مل مالک لے جاتا ہے

میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں

تنویر سپرا

کتنا بعد ہے میرے فن اور پیشہ کے مابین

باہر دانشور ہوں لیکن مل میں آئل مین

تنویر سپرا

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے