آج کے لیلیٰ مجنوں
ایک تھی لیلیٰ، ایک تھا مجنوں۔ مگر لیلیٰ کا نام لیلیٰ نہیں تھا، للی تھا، للی ڈی سوزا۔
وہ دونوں اور ان کے قبیلے صحرائے عرب میں نہیں رہتے تھے۔ ماہم اور باندرہ کے بیچ میں سڑک کے نیچے اور کھاری پانی کی کھاڑی کے کنارے جو جھونپڑیوں کی بستی ہے وہاں رہتے تھے۔ مگر صحرائے عرب کی طرح اس بستی میں بھی پانی کی کمی تھی۔ ڈیڑھ سو جھونپڑیوں میں جو سات سو مرد عورتیں اور بچے رہتے تھے ان سب کے لیے میٹھے پانی کا صرف ایک نل تھا اور اس نل میں صرف دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے شام کو پانی آتا تھا۔ ایک کنستر یا ایک گھڑا پانی لینےکے لیے کئی کئی گھنٹے پہلے سے لائن لگانی پڑتی تھی۔
ایک رات کو موہن جھونپڑی میں اپنے باپ کی کھٹیا کے نیچے سو رہا تھا کہ اس کی ماں نے اسے جھنجھوڑ کر اٹھایا۔ ’’موہن، اے موہن! جا، نل پر اپنی گاگر لائن میں رکھ کے آ، نہیں تو پانی نہیں ملے گا۔‘‘
موہن کی عمر اس وقت مشکل سے نو برس کی ہوگی اور نوبرس کے بچے کو جو دن بھر کیچڑ مٹی میں دوڑتا بھاگتا رہا ہو، بڑی پکی نیند آتی ہے۔ آدھی رات کو اسے اٹھانا آسان نہیں ہے۔
’’ارے اوموہن۔ اٹھتا ہے یا نہیں۔‘‘ماں نے ایک بار پھر اسے جھنجھوڑا۔۔۔ ’’سونے دو نہ ماں۔ ابھی تو آدھی رات ہوئی ہے۔ نل میں پانی تو صبح آٹھ بجے آئے گا۔‘‘
’’اچھا تو سوتا رہ۔ ابھی تیرا بابا آتا ہے وہ اٹھائے گا تجھے۔‘‘بابا کا نام سنتے ہی موہن ہربڑا کر اٹھ بیٹھا۔ دنیا میں وہ کسی سے ڈرتا تھا تو اپنے باپ سے، اور خاص کر رات کو جب وہ دارو پی کر گھر لوٹتا تھا۔
’’اچھا اماں، میں جاتا ہوں۔‘‘ آنکھ ملتا ہوا وہ اٹھا۔ اندھیرے میں ٹٹول کرگاگر اٹھائی اور جھونپڑی سے باہر نکل گیا۔ ساری بستی اندھیرے میں سوئی ہوئی تھی۔ مگر سڑک کی پیلی روشنی نل کےپاس زمین پر رکھے ہوئے کنستروں، گاگروں اور گھڑوں پر پڑ رہی تھی۔ موہن نےسوچا سچ مچ مجھے بڑی دیر ہوگئی۔ یہاں تو سب پہلے ہی اپنے اپنے برتنوں کی لائن لگاگیےہیں۔ اس طرح تو نل میں پانی آٹھ بجے آیا تو اپنا نمبرآتے آتے دس بج جائیں گے اور اس وقت تک پانی آنا بند ہوگیا تو۔۔۔ ؟
موہن نے ادھر ادھر دیکھا، کوئی نہیں تھا۔ صرف نل سے لے کر بستی کے پچھلے کونے بلکہ سڑک تک پانی کے برتنوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔ پہلے ایک چمکتی ہوئی گاگر، پھر ایک لال مٹی کا گھڑا، پھر ایک پرانا زنگ لگا کنستر، پھر ایک ڈالڈا کا خالی ٹین، پھر ایک صراحی، ایک بالٹی، ایک کنستر، ایک گھڑا، دو گاگریں، تین ٹین کے ڈبے، دو بالٹیاں، ایک گاگر۔۔۔
موہن نے ایک بار پھر ادھر اُدھر دیکھ کر سوچا، کسی کا برتن ہٹاکر اپنی گاگر آگے رکھ دوں۔ مگر پھر اسے خیال آیا کہ بستی کے قانون کے مطابق ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ سب ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں، تب ہی تو لائن میں اپنا برتن رکھ کر چین سے سوجاتے ہیں۔ نہیں تو ہر کسی کو رات بھر پہرہ دینا پڑے۔ پانی کے لیے لائن توڑنے پر تو مارپیٹ کیا خون خرابے ہوجاتے ہیں۔ سو اپنی گاگر کو سب سے پیچھے لائن میں ہی رکھنا چاہیے۔ مگر پھر اسے یاد آیا کہ اس کا نمبر آنے سے پہلے نل بند ہوگیا اور گھر میں پانی نہ پہنچا تو اس کا باپ ہڈی پسلی توڑ کر رکھ دے گا۔
کوئی پرواہ نہیں۔ اس نے سوچا۔ سب سورہے ہیں، میں چپکے سے اپنی گاگر آگے بڑھادیتا ہوں او روہ نل کی طرف بڑھا، مگر وہ کسی کا کنستر سرکانے والا ہی تھا کہ پیچھے سے آواز آئی، ’’اے چھالا کیا کلتا ہے؟‘‘ موہن گھبراکر مڑا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کالی سی، دبلی سی، چھوٹی سی چھ سات برس کی بچی ایک میلا پھٹا فراک پہنے ہاتھ میں اپنے قد سے بڑا بانس کا ڈنڈا لیے کھڑی ہے۔
’’چھالا بے ایمانی کرتا ہے۔‘‘بچی ڈنڈا لیے موہن کی طرف بڑھی۔ ’’چل لکھ اپنی گاگل، لائن میں چھپ چے پیچھے۔‘‘
موہن کو اس توتلی چھوکری کی بات سن کر ہنسی آگئی، ’’اری جاجا۔ میں جہاں جی چاہے اپنی گاگر رکھوں گا۔ تو کون ہوتی ہے مجھے روکنے والی۔‘‘یہ کہہ کر وہ گاگر رکھنے والا ہی تھا کہ وہ بولی، ’’تو پھل میں چھول مچاکے چھپ کو بلاتی ہوں۔ چھپ مال مال کے تمہالا بھلکس بنادیں گے۔‘‘
موہن کا ہاتھ رک گیا۔ وہ جانتا تھا اگر اس چھوکری نے سچ مچ شور مچایا تو کیا ہوگا۔ ہر جھونپڑی سے لوگ لاٹھیاں، ڈنڈے، چاقو، چھرے، پتھر لیے ہوئے نکلیں گے اور کوئی سوال و جواب کیے بنا اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔ صحرائے عرب کی طرح اس بستی میں بھی ایک چلو پانی کے لیے دس چلو خون بہایا جاسکتا تھا۔ سو اس نے کہا ’’اچھا بابا تو چلامت۔ میں اپنی گاگر لائن میں سب سے پیچھے رکھ دیتا ہوں۔‘‘مگر بچی اتنی آسانی سے پیچھا چھوڑنے والی نہیں تھی۔ وہ اپنا ڈنڈا گھسیٹتی ہوئی موہن کے پیچھے پیچھے آئی تاکہ وہ کوئی بے ایمانی نہ کرسکے۔ موہن نے لائن کے اخیر میں اپنی گاگر زمین پر رکھ دی اور بولا ’’بس اب تو ٹھیک ہے؟‘‘
’’ہاں، چھپ ٹھیک ہے۔ اب تم جاکے چھو جاؤ۔‘‘
’’پر یہ جگہ سڑک کے پاس ہے۔ کوئی راستہ چلتا میری گاگر اٹھاکر چلتا بنا تو؟‘‘
’’تم پھکل نہ کرو۔ میں جو ہوں۔‘‘اور یہ کہہ کر اس نے چوکیداروں کی طرح ڈنڈے کو زمین پر مار کر کہا، ’’کوئی تمہالی گاگل کو ہاتھ بھی لگائے گا تو اُچھ کا چھل پھول دوں گی۔ ہاں!‘‘
اور اتنی سی بچی کی اتنی بڑی بڑی باتیں سن کر موہن بے اختیار مسکرادیا۔ بستی کے کنارے جہاں وہ کھڑے تھے،، وہاں سڑک پر بجلی کا کھمبا لگا ہوا تھا اور اس کی روشنی کے دائرے میں وہ دونوں بچے کھڑے تھے۔ ساری دنیا اس وقت سو رہی تھی، صرف محبت جاگ رہی تھی اور وہ دونوں۔۔۔ ایک نو برس کا لڑکا ایک چھ برس کی لڑکی۔
للی اور موہن۔
موہن اور لِلی۔
موہن نے اس توتلی کالی دبلی چھوکری کی طرف دیکھا، جو پھٹا فراک پہنے، ننگے پاؤں، اپنے قد سے بڑا ڈنڈا لیے کھڑی تھی اور کھمبے کی روشنی میں اس نے دیکھا کہ جن آنکھوں سے وہ اسے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہے وہ بڑی بڑی اور خوبصورت ہیں جیسے اس ہرن کی آنکھیں جو اس نے چڑیا گھر میں دیکھی تھیں اور جس کے جنگلے پر لکھا ہوا تھا ’’عربستان کی ہرن۔‘‘ اور للی نے موہن کی طرف دیکھا جو ایک میلی نیکر پر اپنے باپ کا پھٹا ہوا ایک بنیان پہنے ہوئے تھا اور اس نے خاموش تتلاہٹ سے اپنےدل میں سوچا، ’’یہ چھوکلا مجھے اچھالگتا ہے، اِچھ چھے میں دوچھتی کلوں گی۔ اب میں اچھے ڈنڈا نہیں مالوں گی۔‘‘
روشنی کے دائرے میں وہ دونوں ایسے کھڑے تھے جیسے ان کے ارد گرد کسی نے قسمت کاایسا حصار کھینچ دیا ہو جس سے باہر نکلنا اب ان کے بس میں نہ ہو۔۔۔ اور پھر وقت رک گیا اور وہ دونوں وہاں خاموش کھڑے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ نہ جانے کتنی دیر تک۔۔۔
شاید صر ف ایک منٹ۔
شاید ایک سوبرس۔
شاید پانچ منٹ۔
شاید پانچ سو برس۔
فادر ولیم کی لمبی سفید داڑھی ہوا میں ایسے اڑ رہی تھی جیسے وہ اڑتا ہوا کبوتر ہو، اور سامنے بیٹھے ہوئے سب بچے حساب کا سوال کرنے کی بجائے فادر ولیم کی داڑھی کا کھیل دیکھ رہے تھے جو کبھی ہوا کے جھونکے سے اپنے پر پھیلالیتی تھی اور کبھی پامفریٹ مچھلی کی طرح گول اور سپاٹ ہوجاتی تھی۔ ان کی کرسی کے پاس ان کی بیدکی چھڑی رکھی تھی۔ جس کی مار کا مزا ہر بچہ چکھ چکا تھا اور جس کے بارے میں مشہور تھا کہ فادر اسے روز تیل میں بھگوکر لاتے ہیں، مگر اس وقت کسی کو مار کھانے کاڈر نہیں تھا کیونکہ فادرولیم کرسی پر بیٹھے بیٹھے اونگھ رہے تھے بلکہ شاید سو رہے تھے۔ صرف ان کی داڑھی جاگ رہی تھی۔۔۔
فادرولیم دراصل ’’فادر‘‘ کہلانے کے مستحق نہیں تھے۔ کسی زمانے میں وہ پادری ضرور تھے، مگر انہیں رومن کیتھولک چرچ سے نکالا ملا ہوا تھا کیونکہ انہوں نے لاٹ پادری سے کہہ دیا تھا کہ چرچ کا کام عیسی مسیح کا امن اور محبت کا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ نہ ہندوؤں مسلمانوں یا ہریجنوں کو محتلف قسم کے لالچ دے کر ان کو عیسائی بنانا۔ سو ان کا پادریوں والا لمبا چوغہ ان سے چھین لیا گیا تھا مگر ان کی لمبی داڑھی لاٹ پادری بھی ان سے نہ چھین سکے تھے اور اب وہ اس جھونپڑیوں کی بستی میں آسمان کے نیچے اپنا اسکول چلاتے تھے۔ جس میں وہ بچے پڑھتے تھے جن کو کسی سرکاری اسکول میں داخلہ نہ ملاہو یا جن کے ماں باپ سرکاری یا بیوپاری سکولوں کی فیس نہ دے سکتے ہوں۔ فادر ولیم کے اسکول کا نہ کوئی نام تھا نہ اس میں میز کرسیاں، بنچ اور ڈیسک تھے۔ بس ایک تین ٹانگ کے کٹہرے پر لگا بلیک بورڈ تھا جس پر اس وقت موہن چاک سے فادر ولیم کی اڑتی ہوئی سفید داڑھی کی تصویر بنارہا تھا۔
اور دور اپنی جگہ پر بیٹھی للی اپنی بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں سے ٹکٹکی باندھے بلیک بورڈ کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں کالے تختے پر دھیرے دھیرے فادر ولیم کا گول چہرہ اور ان کی ہوا میں بکھری ہوئی سفید داڑھی ابھر رہی تھی مگر دراصل وہ اپنے موہن کی طرف دیکھ رہی تھی اور اب بغیر تتلائے دل ہی دل میں سوچ رہی تھی، ’’میرا موہن کتنا اچھا ہے۔ اس نے تصویر بھی بنائی ہے تو کتنی اچھی بنائی ہے۔ ایسا لگتا ہے فادر ولیم کی داڑھی اب اُڑی اَب اُڑی!‘‘
ابھی موہن نے تصویر پوری نہیں کی تھی کہ فادر ولیم جاگ پڑے اور سب بچے جو اب تک شور مچارہے تھے یا آپس میں دھول دھپا کر رہے تھے، ایک دم سیدھے ہوکر بیٹھ گیے اور زور زور سے ’’سی اے ٹی کیٹ۔ کیٹ معنی بلی‘‘ کرنے لگے۔ مگر موہن کا منھ ابھی تک بلیک بورڈ کی طرف تھا۔ وہ نہیں دیکھ سکتا تھا کہ فادر ولیم کے ساتھ ساتھ ان کی تیل میں بھیگی ہوئی چھڑی بھی اس کی طرف بڑھ رہی ہے۔
’’م۔ م۔ م۔ موہن!‘‘ للی اب ساڑھے سات برس کی ہوچکی تھی اور اس نے تتلانا بند کردیا تھا۔ مگر موہن کو مار پڑے گی اس ڈر سے وہ ہکلاتی ہوئی چلائی، ’’م۔ م۔ م۔ موہن۔ ف۔ ف۔ ف۔ ا۔ در۔۔۔ !‘‘موہن گھبراکر مڑا اور ساتھ ہی اس کی کمر پر چھڑی کی مار پڑییہ دیکھ کر سب بچے کھکھلاکر ہنس پڑے۔ سب، سوائے ایک للی کے۔ اس کا چہرہ ایک دم پیلا پڑگیا تھا اور وہ دھیرے دھیرے فادر ولیم کی طرف بڑھ رہی تھی۔
’’ہاتھ باہر نکالو موہن!‘‘فادر ولیم نے ڈانٹ کر کہا، او رجب جب ڈر کے مارے موہن ہچکچایا تو انہوں نے ایک عجیب انداز سے (جس میں حکم بھی تھا اور التجا بھی) کہا، ’’ہاتھ نکالو۔ یو فول، ہاتھ باہر نکال اور کہیں مار پڑی تو کسی ہڈی پر چوٹ آجائے گی۔‘‘
سوموہن نے ہاتھ آگے کردیا۔ فادر ولیم کی چھڑی ہوا میں اٹھی اور سڑاپ سے موہن کے ہاتھ پر پڑی۔ موہن نہیں چاہتا تھا کہ للی کے سامنے وہ کسی کمزوری یا بودے پن کا اظہار کرے۔ چھڑی کا نشان اس کے ہاتھ پر پڑگیا۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے ہتھیلی پر کسی زہریلے سانپ نے ڈس لیا ہو۔ مگر اس نے دانت کچکچالیے اور اس کے منھ سے اُف نہ نکلی۔ مگر چلتے چلتے للی چلا پڑی، جیسے مار اس کو پڑی ہو۔
’’ون!‘‘
’’ٹو۔‘‘
’’تھری۔‘‘
’’فور۔‘‘
فادر کی چھڑی چار بار ہوا میں اٹھی اور چار بار موہن کے ہاتھ پر پڑی، اور ہر بار موہن اپنے درد کو پی گیا اور ہر بال للی بے اختیار چلا پڑی۔
’’دیٹ ول ڈو۔‘‘ (THAT WILL DO) فادر نے چھڑی واپس میز پر رکھتے ہوئے موہن سے کہا اور پھر اپنی لمبی سفید داڑھی پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے، ’’اب کبھی کوئی میری داڑھی کی تصویر بنائے تو یاد رکھے کہ میری داڑھی اتنی چھوٹی نہیں ہے جیسی موہن نے بنائی ہے۔ پورے ساڑھے تیرہ انچ لمبی ہے۔‘‘
یہ سن کر سب بچے ہنس پڑے۔ فادر ولیم بھی ہنس پڑے۔ موہن ہنس کر جلدی جلدی بلیک بورڈ کپڑے سے صاف کرنے لگا۔ تب فادر ولیم نےللی کو دیکھا جو آنکھیں پھاڑے فادر کو دیکھ رہی تھی۔
’’ویل۔ للی تم کو کیا چاہیے۔‘‘ فادر نے نرمی سے پوچھا۔
’’فادر۔۔۔‘‘
’’یس مائی چائلڈ!‘‘للی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ سیدھی بلیک بورڈ کے پاس گئی اور موہن سے چاک چھین کر خود اسی جگہ فادر ولیم کی تصویر بنانے لگی۔ سب حیرت سے دیکھتے رہے کہ للی کو دفعتاً نہ جانے کیا ہوگیا ہے۔ للی کی بنائی ہوئی تصویر نہ صرف اچھی نہیں تھی بلکہ کسی طرح سے فادر ولیم کی تصویر نہیں لگتی تھی۔ نہ فادر ولیم اتنے موٹے تھے، نہ وہ اتنےلمبے تھے، نہ ان کے گلے میں اتنا بڑا کراس لٹکا رہتا تھا۔ نہ ان کی آنکھیں اتنی بڑی اور ایسی بھیانک تھیں جیسی للی نے اپنی تصویر میں بنائی تھیں۔ مگر داڑھی کو للی نے بڑی احتیاط سے بنایا اور تصویر ختم کرتے ہوئے فادر ولیم کی طرف مڑکر بولی،، ’’اب آپ فٹ رول لے کر اپنی داڑھی کو ناپ لیجیے۔‘‘
اس پر ساری کلاس کھلکھلاکر ہنس پڑی اور باوجود فادر ولیم کے اپنی بید سے میز کو دھڑدھڑانے کے بچے ہنستے ہی رہے۔ اس سے خفاہوکر فادر نے للی کی طرف مڑکر پوچھا ’’کون ہو تم؟‘‘للی نے کہا، ’’للی۔‘‘ ایک چھوکرا کلاس کے پیچھے سے چلایا، ’’للی نہیں فادر، لیلی!‘‘
’’سائلنس۔‘‘ کلاس کو اچھی طرح سے گھور کرفادر نے للی سے کہا، ’’تم نے بھی یہی حرکت کی ہے؟ پھر تمہیں بھی وہی سزا ملے گی۔ نکالو، اپنا ہاتھ باہر۔‘‘للی نے اپنا ہاتھ کھول کر بڑھادیا۔ اور فادر ولیم جو اس دنیا اور اس دنیا دونوں کے سب جسمانی اور روحانی بھیدوں سے واقف تھے، یہ دیکھ کر اچھنبے میں رہ گیے کہ للی کے ہاتھ پر چار گہری نیلی لکیریں پڑی ہوئی تھیں جیسے اس کی ہتھیلی پر پہلے ہی سے چار بار بید کی مار پڑچکی ہو۔
للی شام کو دفتر سے باہر نکلی تو فٹ پاتھ پر کھڑے ہوئے تین ٹیڈی بائیز (TEDDY BOYS) نے بہ یک وقت سیٹی بجائی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں للی تھی بھی سیٹی بجانےکے قابل۔ رنگت سانولی مگر خوبصورت آنکھیں۔۔۔ قدرتی گھونگریالے چمکیلے سیاہ بال، چھریرا مگر بھرا ہوا جسم جو اس کے چست فراک میں اور بھی نمایاں نظرآتا تھا۔ اونچے فراک میں سے نکلی ہوئی سڈول ٹانگیں۔ ایسی لڑکی کو دیکھ کر بھلا کون سیٹی نہیں بجائے گا؟
للی کو ٹیڈی بائیز کی سیٹی سننے کی عادت پڑ گئی تھی۔ دن میں کئی بار اس کو اس قسم کی سیٹیاں سنائی دیتی تھیں۔ للی کو ان لفنگے چھوکروں سے کوئی شکایت نہیں تھی۔ اگر اسے دیکھ کر ان کا جی سیٹی بجانے کو چاہتا ہے تو شوق سے سیٹی بجائیں۔ بڑی لاپرواہی سے وہ اپنا بیگ ہلاتی ہوئی ان کے پاس سےگزرجاتی اور اس کا یہ انداز دیکھ کر وہ بھی سیٹی بجانا بھول جاتے۔ لیکن آج اس کا موڈ خراب تھا۔ جیسے ہی ٹیڈی بائیز نے سیٹی بجائی، للی نے پلٹ کر دیکھا، پھر وہ ان کی طرف بڑھی۔ اس کی آنکھوں میں غصے کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس کو دیکھتے ہی سیٹی کی آواز تینوں چھوکروں کے ہونٹوں پر سے غائب ہوگئی۔
’’کیا ہے؟‘‘اس نے ڈانٹ کر کہا، ’’شرم نہیں آتی، لوفر کہیں کے! کیوں، بلاؤں پولیس کو؟‘‘اور پولیس کا نام سنتے ہی تینوں تنگ مہری کی پتلونیں اور نکیلے جوتوں کی تینوں جوڑے وہاں سے بھاگتے ہوئے نظر آئے۔
’’سوائن!‘‘ انھیں بھاگتے دیکھ کر للی چلائی، ’’ سور کہیں کے!‘‘ پھر وہ بس اسٹینڈ کی طرف چل پڑی۔ آج اس کا موڈ اتنا خراب تھا کہ فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی اونچی ایڑی کے سینڈل کی آواز میں بھی غصہ بھرا ہوا لگتا تھا۔
’’سوائن! سور کہیں کا‘‘چلتے چلتے دانت بھنچ کر اس نے اتنے زور سے کہا کہ آگے چلنے والے ایک ادھیڑ عمر کے شریف آدمی نے گھبراکر پیچھے دیکھا۔ مگر یہ گالی اس نے اس بے چارے کو نہیں دی تھی۔ نہ ہی یہ گالی اس نے ان ٹیڈی بوائز کو دی تھی، جن کی لوفرانہ حرکت کو وہ اب تک بھلاچکی تھی۔ اس وقت اس کو غصہ آرہا تھا اپنے دفتر کے منیجر پر، جو موٹا تھا اور گنجا تھا۔ مگر اپنے گنج کو چھپانے کے لیے کنپٹی کے لمبے بالوں کو گنجی کھوپڑی کے اوپر چپکائے رکھتا تھا اور جس کی رنگت مینڈک کے پیٹ کی طرح پیلی تھی اور جس کے موٹے موٹے گدے دار ہاتھ ہمیشہ ہوس کے پسینے سے بھیگے رہتے تھے اور جو دفتر میں کام کرنے والی ہر لڑکی سے فلرٹ کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا تھا۔
للی کو اس دفتر میں کام کرتے ہوئے صرف دومہینے ہوئے تھے مگر اتنے عرصے ہی میں اس نے منیجر کی بدنیت کو بھانپ لیا تھا اور اس لیے وہ جہاں تک ممکن ہوتا، اس کے قریب جانے سے کتراتی رہتی تھی مگر اس دن منیجر نے اپنی سپیشل سٹینو گرافر کو چھٹی دے دی تھی اور للی کواس کی جگہ کام کرنا پڑا تھا۔
تین گھنٹے تک للی نے شارٹ ہینڈ کی کتاب پر منیجر کے ڈکٹیٹ کرائے ہوئے خطوں کے ڈرافٹ لکھے تھے۔ ہر خط شروع ہوتا تھا۔ ’’ڈیر سر‘‘ یا ’’مائی ڈیر۔۔۔‘‘ سے اور ہر بار جب اس کے منہ سے ’’ڈیر‘‘ کا لفظ نکلتا تھا، وہ ایک خاص انداز سے للی کی طرف دیکھتا تھا، جس کا صرف ایک ہی مطلب ہوسکتا تھا مگر جس کو سمجھنے کے لیے للی تیار نہ تھی اور پھر شام ہوتے جب وہ ان سب خطوں کو ٹائپ کرکے دستخط کرانے لے گئی تھی، اس بدمعاش نے للی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تھا، ’’آج رات کے شو میں سنیما دیکھنے کے لیے چلتی ہو؟‘‘ اور پھر اس نے للی کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف کھینچنا چاہا تھا، تاکہ اسے اپنی گود میں بٹھالے اور تب للی کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہ رہا تھا کہ منیجر کے ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کرے اور ہاتھ چھڑا کر وہاں سے بھاگ آئے۔
منیجر کا دفتر ایرکنڈیشنڈ تھا اور اس لیے اس تھپڑ کی آواز کسی نے نہ سنی تھی۔ مگر سب نے یہ ضرور دیکھا کہ للی جب باہر نکلی تو اس کا چہرہ سرخ تھا اور اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے اور اس کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔ للی تیز تیز چلتی ہوئی اپنی میز تک گئی، دراز کھول کر اپنی سب چیزیں نکال کر اپنے بیگ میں ڈالیں اور پھر بغیر کسی سے کچھ کہے وہ دفتر سے باہر نکل گئی۔ وہ جانتی تھی کہ اب وہ اس دفتر میں پھر کبھی قدم نہیں رکھے گی۔
دفترمیں جتنے دوسرے نوجوان کلرک تھے سب ہی نے تو باری باری للی سے دوستی کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس نے ان میں سے کسی کو منھ نہ لگایا تھا، نہ کسی کے ساتھ سنیما گئی تھی، نہ کسی ریستوران میں چائے پینے کی دعوت قبول کی تھی اور ایک دن جب کسی نے زیادہ اصرار کیا تھا تو اس نے کہہ دیا تھا ’’آئی ایم سوری، مگر شام کو مجھے موہن سے ملنا ہوتا ہے۔‘‘
’’موہن!‘‘پتلی مونچھوں والے ٹامس نے حیرت سے پوچھا تھا، ’’یہ موہن کون ہے؟‘‘ اور للی نے جواب دیا تھا، ’’وہ میرا موہن ہے!‘‘
’’کیا تمہاری اس سے منگنی ہوئی ہے؟‘‘
’’ہاں، یہی سمجھو۔‘‘للی نے جواب دیا تھا۔
’’کب سے؟‘‘
’’بارہ برس سے۔‘‘
’’تو کیا تمہاری منگنی بچپن ہی میں ہوگئی تھی؟‘‘
’’ہاں، یہی سمجھو۔‘‘
’’مگر موہن! وہ تو ہندو ہوگا، اس سے تمہاری شادی کیسے ہوسکتی ہے؟‘‘
للی نے مسکراکر جواب دیا تھا، ’’مجھے نہیں معلوم تھا محبت کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ بیگ ہلاتی ہوئی دفتر سے باہر نکل گئی تھی۔ اس کے جانے کے بعد چگی داڑھی والے اکبر علی لیجر کلرک نے اپنا رجسٹر بند کرکے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا تھا، ’’ارے واہ۔ اپنی للی تو لیلی نکلی۔‘‘ اور جب ٹامس نے پوچھا، ’’لیلیٰ ہو از شی؟‘‘ (WHO IS SHE) تو اکبر نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا:’’وہ بھی ایک محبت کی دیوانی تھی، للی کی طرح۔‘‘
لوکل ٹرین پریل کے اسٹیشن پر پہنچی اور للی دھکم پیل کرکے تھرڈ کلاس کے ڈبے کی بھیڑ میں سے باہر نکلی تو اس نے موہن کو حسب معمول کلاک کے نیچے کھڑا پایا۔ موہن اب اکیس برس کا جوان تھا۔ وہ ایک مل میں میکانک تھا اور اس کی نیلی شرٹ اور پتلون پر پڑے تیل کے دھبے اعلان کر رہے تھے کہ وہ سیدھا کام سے آرہا ہے۔
’’ڈارلنگ!‘‘للی نے موہن کے بازو میں اپنا ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا، ’’تمہیں بہت انتظار کرنا پڑا کیا؟‘‘
موہن نے مسکراکر جواب دیا، ’’صرف آدھ گھنٹہ۔ اتنی دیر میں صرف چار ٹرینیں گئی ہیں۔ کیوں آج دفتر میں کام زیادہ تھا یا اپنے منیجر سے ذکر چھیڑ رہی تھیں؟‘‘للی نے جلدی سے کہا، ’’اس شیطان کا تو نام مت لو۔ جی چاہتا ہے اس کا منھ نوچ لوں۔ مگر آج سے تمہیں کبھی انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ میں نوکری چھوڑ آئی ہوں۔‘‘
اتنے میں ٹرین چلی گئی تھی اور اگلی ٹرین آنے تک پلیٹ فارم پر سناٹا تھا۔
ٹی اسٹال کے پاس اپنی مقررہ بنچ پر بیٹھے ہوئے للی اور موہن بھجیا کھا رہے تھے اور ایک دوسرے کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ بھجیا ختم ہوگئی، مگر وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔ دوسری ٹرین آئی۔ مسافر ڈبوں میں سے اترے، مسافر ڈبوں میں چڑھے۔ ٹرین چلی گئی۔ ایک بار پھر اسٹیشن پر سناٹا چھا گیا۔ رات ہوگئی۔ اسٹیشن کی روشنیاں جل اٹھیں۔ ٹرینیں آتی رہیں۔ ٹرینیں جاتی رہیں۔ مسافر اترتے رہے، مسافر چڑھتے رہے۔ للی اور موہن اسی جگہ بیٹھے رہے، باتیں کرتے رہے اور بجھیا خرید کر کھاتے رہے اور پیار بھری نطروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔
آخر کا رللی نے کہا، ’’اچھا تو اب دیر ہوگئی ہے۔ مجھے جانا ہی چاہیے۔‘‘موہن نے جیسے خواب میں کوئی بات سنی ہو، ’’للی کچھ کہا تم نے؟‘‘
’’نہیں کچھ نہیں کہا۔‘‘للی نے اسے یقین دلایا۔ اور وہ دونوں ایک بار پھر ایک دوسرے میں کھو گیے۔ ایک کے بعد ایک دو ٹرینیں جنوب کو گئیں۔ تین ٹرینیں شمال کو گئیں، مگر وہ دونوں اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ یہاں تک کہ چائے اور بجھیا کی دکان بھی بند ہوگئی اور چائے والا جاتے جاتے ان سے کہہ گیا، ’’ابھی آخری ٹرین آنے والی ہے۔ اس کے بعد صبح تک کوئی ٹرین نہیں ملے گی۔‘‘ تب وہ دونوں چونکے۔ دور سے ٹرین قریب آنے کی آواز دھیرے دھیرے بڑھتی جارہی تھی۔
’’تو کل تم دفتر نہیں جاؤگی؟‘‘موہن نے پوچھا۔
’’نہیں، اب میں کبھی دفتر نہیں جاؤں گی۔‘‘
’’پھر میں تم سے کیسے ملا کروں گا؟‘‘
’’تمہارے مل کی شفٹ ختم ہونے سے پہلے میں یہاں آجایا کروں گی۔‘‘
’’اور اگر تمہارے ڈیڈی نے تمہیں اس وقت گھر سے نہ نکلنے دیا؟‘‘
’’پھر میں کیسے آسکتی ہوں؟ تم ہی بتاؤ۔ پھر کریں تو کیا کریں؟‘‘
’’تو پھر ایک ہی راستہ ہے۔ کل ہی ہم شادی کرلیں گے۔‘‘
للی کے کانوں میں ننھی ننھی گھنٹیاں بجنے لگیں اور اتنے میں ٹرین آگئی اور جو للی نے دھیرے سے کہا وہ ریل کی دھڑدھڑاہٹ میں کھو گیا۔ موہن نے للی کا بازو پکڑا، ’’آؤ تمہیں گھر پہنچا آؤں۔‘‘ اور وہ دونوں سامنے والے ڈبے میں سوار ہوگیے۔
باندرہ کی سڑکیں رات کے سناٹے میں سوئی ہوئی۔۔۔ صرف للی اور موہن کے قدموں کی آواز تھی اور فٹ پاتھ پر سونے والوں کے خراٹے۔ دور کہیں کسی گھڑیال نے دوبجائے۔ موہن نے چلتے چلتے کہا، ’’للی یاد ہے ماہم والی بستی میں جب ہم پہلی بار ملے تھے اس وقت بھی رات کے دو ہی بجے تھے۔‘‘
’’بالکل یاد ہے۔ تم چوری سے اپنی گاگر لائن میں آگے رکھ رہے تھے۔‘‘
’’اور تم ڈنڈا ہاتھ میں لیے پہرا دے رہی تھیں اور تتلا تتلا کر کہہ رہی تھیں۔۔۔ مال مال کے بھل کچھ بنادوں گی۔‘‘
’’مجھے ماہم والی بستی بہت یاد آتی ہے۔ وہاں ہم کتنے خوش تھے۔‘‘
’’مگر اب تو تم بہت اچھی فلیٹ میں رہتی ہو۔‘‘
’’ہاں، یہ گھر تو اچھا ہے مگر تم جو نہیں ہو وہاں۔ ماہم کی بستی میں تو ہم دن بھر ساتھ کھیلتے تھے۔‘‘
’’یاد ہے جب میں نے بلیک بورڈ پر فادر ولیم کی تصویر بنائی تھی؟‘‘
راستے کی روشنی میں للی نے اپنی ہتھیلی کو دیکھا جہاں ہلکی نیلی نیلی دو لکیریں پڑی ہوئی تھیں اور اس نے کہا، ’’یاد ہے۔‘‘
اور پھر للی کا گھر آگیا۔ دوسری منزل پر جس فلیٹ میں وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی، وہاں ایک کھڑکی میں روشنی ہو رہی تھی۔ موہن نے کہا، ’’لگتا ہے تمہارے ڈیڈی ممی جاگ رہے ہیں۔ تمہیں کچھ کہیں گے تو نہیں؟‘‘للی نے جواب دیا، ’’فکر نہ کرو۔ وہ میرا کمرہ ہے اور اس کی لیچ کی، میرے پاس رہتی ہے۔ اچھا گڈنائیٹ، میں کل ہی ڈیڈی سے بات کرکے شام کو تمہیں ملوں گی۔‘‘
’’تو پھر چار بجے پریل سٹیشن پر۔‘‘
للی اندھیرے زینے پر راستہ ٹٹولتی ہوئی اوپر چڑھ گئی اور جب تک اس کے قدموں کی آواز آتی رہی موہن وہیں سڑک پر کھڑا رہا۔ للی ’’لیچ کی‘‘ سے دروازہ کھول کر اپنے کمرے میں داخل ہوئی، تو سب سے پہلے سڑک والی کھڑکی کھولی۔ کتنا اچھا ہے میرا موہن! اس نے سوچا، ’’میری فکر میں اب تک سڑک پر کھڑا ہے۔‘‘ پھر اس نے ہاتھ کے خاموش اشارے سے موہن کو ’’بائی بائی‘‘ کہا اور جب مطمئن ہوکر موہن بھی ہاتھ ہلاکر چل پڑا۔ تب ہی وہ کھڑکی سے ہٹی۔ وہ مڑی ہی تھی کہ للی کے منھ سے ایک ہلکی سی چیخ نکل گئی۔ ڈریسنگ گاؤن پہنے اس کا باپ دروازے میں کھڑا تھا۔
پریل سٹیشن پر لولکل ٹرینیں آرہی تھیں۔ ٹرینیں جارہی تھیں۔ ’’فاسٹ‘‘ ٹرینیں دھڑدھڑ کرتی ہوئی، پلیٹ فارم کو ہلاتی ہوئی گزر رہی تھیں۔ ایک بنچ پر للی اور موہن بیٹھے تھے اور ان کے درمیان میں کاغذ کی بھجیا رکھی تھی، مگر آج دونوں میں سے ایک کا ہاتھ بھی اس چٹ پٹی مسالے دار بھجیا کی طرف نہ اٹھ رہا تھا۔
’’سو تمارے ڈیڈی نے انکار کردیا؟‘‘موہن نے خاموشی کو توڑتے ہوئے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ ’’انکار ہی نہیں کیا، موہن۔‘‘ للی بولی۔ ’’بہت کچھ کہا۔ شراب پئے ہوئے تھے۔ سو گالیاں بھی دیں مجھے۔ تمہیں بھی بہت برا بھلا کہا۔‘‘
’’کیا کہا؟ معلوم تو ہو ان کو مجھ میں کیا برائی نظر آتی ہے؟‘‘
للی نے ایک دم جواب نہ دیا۔ جیسے بولتے ہوئے ہچکچارہی ہو۔ اتنےمیں ایک ٹرین آکر ٹھہر گئی۔ سارے ڈبے کچھاکھچ بھرے ہوئے تھے۔ مسافر اُترے، مسافر چڑھے۔ سب ڈبے جوں کے توں بھرے رہے۔ گاڑی پھر چل دی۔ اترنے والے مسافر سیڑھیاں چڑھتے ہوئے پل پر ہولیے۔۔۔ پلیٹ فارم پھر سنسان ہوگیا۔ اب للی نے دھیرے سے کہا، ’’ڈیڈی کہتے ہیں تم۔۔۔ تم۔۔۔ ہندو ہو، اور بولتے ہیں میں مرجاؤں گا پر اپنی بیٹی کی شادی ایک ہندو کے ساتھ نہ ہونے دوں گا۔‘‘
’’تمہارے ڈیڈی کرسچن ہیں؟‘‘
’’ہاں!‘‘
’’چرچ جاتےہیں؟‘‘
’’پہلے کبھی کبھار سنڈے کو چلے جاتے تھے۔ اب تو انہیں شراب پینے سے فرصت ہی کب ملتی ہے جو وہ چرچ جانے کا سوچیں۔‘‘
’’اور جب فرصت ملتی ہے تب کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’تم تو جانتے ہی ہو موہن۔ میں تمہیں بتاچکی ہوں۔‘‘ للی نے آواز کو دھیمی کرتے ہوئے ادھر ادھر دیکھ کر جواب دیا۔ ’’ڈیڈی داروکا دھندا کرتے ہیں۔‘‘
اتنے میں دوسری طرف کی ٹرین آگئی۔ یہ اتنی بھری ہوئی نہیں تھی۔ تھرڈ کلاس کے ڈبوں سے پندرہ بیس مسافر اترے۔ فرسٹ کلاس سے ایک بھی نہیں اترا۔ ٹرین چل دی۔ پلیٹ فارم پھر سنسان ہوگیا۔
’’اور کیا کہتے ہیں تمہارے ڈیڈی؟‘‘موہن نے ایک ایک لفظ کو چباکر کہا۔
’’کیا کروگے سن کر موہن؟ تمہارے بارے میں بری بری باتیں جو وہ کہتے ہیں، ان کو دہرانا مجھے اچھا تھوڑا ہی لگتا ہے۔‘‘
’’پھر بھی میں جاننا چاہتا ہوں، وہ کیا کہتے ہیں، کیا سوچتے ہیں میرے بارے میں۔۔۔ ؟ میرے ہندو ہونے کے علاوہ اور بھی کوئی اعتراض ہے ان کو؟‘‘
’’ہے۔‘‘للی نے جواب دیا۔
’’کیا ہے؟‘‘
’’وہ کہتے ہیں تم ایک لیبر ہو، مل میں مزدور ہو، تمہارے کپڑوں سے پسینے اور تیل کے دھبوں کی بو آتی ہے انہیں؟‘‘
’’تو وہ دن بھول گیے ہیں جب ہم اور وہ دونوں گھرانے ماہم والی بستی کی جھونپڑیوں میں رہتے تھے؟‘‘
’’اب وہ اس بستی کی بات سننا نہیں چاہتے موہن، وہ ان جھونپڑیوں کو بھول جانا چاہتے ہیں۔ وہ میرے باپ ہیں، میں ان سے بحث نہیں کرسکتی۔ تم بتاؤ تمہارے بابا نے کیا کہا؟ وہ تو ہمیں آشیرواد دیں گے نا؟‘‘
موہن جواب سوچ ہی رہا تھا کہ ایک تیسری ٹرین آگئی۔ یہ پہلی ٹرین سے بھی زیادہ کچھاکھچ بھری ہوئی تھی۔ جو اندر تھے وہ باہر نکلنے کی کوشش کر رہے تھے اور جو باہر تھے وہ اندر گھسنے کے لیے زور لگا رہے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کئی منٹ ٹرین کو ٹھہرنا پڑا۔ پھر بھی جب ٹرین چلی تو کئی مسافر جو اترنا چاہتے تھے، وہ اندر ہی رہ گیے اور کئی جو اس میں چڑھنا چاہتے تھے وہ پلیٹ فارم پر کھڑے رہ گیے۔ ان میں سے ایک ادھیڑ عمر کا آدمی جو میلا پاجامہ اور دھلی ہوئی قمیص پہنے ہوئے تھا، اس بنچ پر آکر بیٹھ گیا جہاں موہن اور للی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بنچ کے دوسرے کنارے پر بیٹھا ہوا تھا مگر منھ پھاڑے ہوئے ان دونوں کو اتنے تعجب اور غور سے دیکھ رہا تھا جیسے عجیب جانوروں کا جوڑا اس نے اِس سے پہلے کبھی نہ دیکھا ہو۔
موہن نے اس آدمی کی طرف کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے دھیرے سے کہا، ’’یہ نہ جانے کون ہے جو ہمیں یوں گھور گھور کر دیکھ رہا ہے۔ بابا کا جاننے والا نہ ہو؟‘‘
’’تو پھر کیا کہا تمہار بابا نے؟‘‘للی نے اپنا سوال پھر دہرایا۔ موہن کو، جو اب تک اس سوال سے کترا رہا تھا، جواب دینا ہی پڑا، ’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ بھی اس شادی کے خلاف ہیں، للی۔‘‘
’’وہ کیا وجہ بتاتے ہیں؟‘‘
’’کہتے ہیں، ہندو ہوکر میں کرسچین لڑکی سے کیسے شادی کرسکتا ہوں؟‘‘
’’کیوں، کرسچین لڑکیوں میں انہیں کیا برائی دکھائی دیتی ہے؟‘‘
’’وہ کہتے ہیں۔۔۔ کرسچین چھوکریاں بڑی خراب ہوتی ہیں۔ ہر مرد سے آنکھیں لڑاتی ہیں۔‘‘للی کے سانولے چہرے پر سرخی کی ایک لہر دڑ گئی، ’’کیا تم بھی یہی سمجھتے ہو؟‘‘
’’نہیں نہیں، للی یہ بات نہیں ہے۔ بھلا میں ایسا کیسا سوچ سکتا ہوں۔ مگر بابا کو کون سمجھائے۔ تمہارے ڈیڈی کو بھی برا بھلا کہتے ہیں۔ کہتے ہیں وہ دارو کا دھندہ کرتا ہے۔‘‘
’’اور تمہارے بابا کیا دھندہ کرتے ہیں؟‘‘
موہن نے ہچکچاکر جواب دیا، ’’سٹے کا۔‘‘
للی کچھ کہنے والی تھی مگر اتنی دیر میں دوسری ٹرین آگئی اور پلیٹ فارم پر پھر گہما گہمی شروع ہوگئی مگر وہ آدمی جو ان کی بنچ کے دوسرے کنارے پر بیٹھاتھا، وہیں بیٹھا رہا اور اسی طرح ان کو گھورتا رہا بلکہ ان کو دیکھ دیکھ کر مسکراتا رہا۔ گاڑی گئی تو للی نے کہا، ’’اب کیا ہوگا موہن؟‘‘موہن نے کہا، ’’کچھ سمجھ میں نہیں آتا، میں تو آج اسی فکر میں مل میں کام کرنے بھی نہیں گیا۔ اگر تمہارے ڈیڈی نے تمہاری شادی کسی اور سے کردی تو میں جان دے دوں گا۔‘‘للی بولی، ’’تم کیا سمجھتے ہو، میں زندہ رہوں گی؟ ڈیڈی نے زبردستی کی تو میں زہر کھالوں گی۔۔۔ موہن! تم مجھے تھوڑا سا زہر لادو۔‘‘
’’زہر میں کہاں سے لاؤں گا۔ زہر پر تو کنٹرول ہے۔ ڈاکٹر کے چٹھی دیے بنا زہر مل ہی نہیں سکتا۔‘‘
تھوڑی دیر وہ چپ چاپ بیٹھے رہے اور ان کے بیچ میں بھجیا اسی طرح پڑی رہی۔ پھر نہ جانے کیسے پہلے للی کی اور پھر موہن کی نگاہ ریل کی پٹری پر جم گئی۔ فولاد کی کالی پٹری جو ریل کے پہیوں کی رگڑ سے چمک رہی تھی۔ شاید دور سے ریل چلی آرہی تھی۔ پٹری میں سے ایک عجیب زوں زوں کی دھیمی دھیمی آواز آرہی تھی۔۔۔ جیسے ستارے کے تار کو کسی نے چھیڑ دیا ہو اور اب اس کی جھنکار کی گونج رہ گئی ہو۔ جیسے کتنی ہی شہد کی مکھیاں بھن بھنارہی ہوں۔ جیسے وہ پٹڑیاں کتنی عجیب انجانی زبان میں ان سے کچھ کہہ رہی ہوں۔
ان کی نگاہیں ریل کی پٹری پر جمی ہوئی تھیں کہ ایک دم دھڑدھڑکرتی ہوئی ٹرین آگئی۔ ان کے سامنے کی پٹری پر سے ٹرین کے کتنے ہی بھاری ہیبت ناک پہیے دھڑ دھڑاتے ہوئے گزر گیے۔ پھر وہ ٹرین بھی چلی گئی، مگر وہ پٹری پہلے کی طرح چمکتی رہی، گنگناتی رہی، ان سے کچھ کہتی رہی۔ اور پھر ایک ساتھ ان دونوں کی سمجھ میں آگیا کہ ریل کی پٹری ان سے کیا کہہ رہی ہے۔
للی نے موہن کی طرف دیکھا۔
موہن نے للی کی طرف۔
اور دونوں کی نگاہوں میں ایک ہی سوال تھا اورایک ہی جواب۔ اس زندگی سےموت بہتر ہے اور موت وہاں ان کے سامنے، وہاں اس ریل کی پٹری کی تلوار جیسی دھار پر ان کا انتظار کر رہی تھی۔ اب قریب آنے والی ریل کی آواز سے ریل کی پٹریاں جھنجھنا اٹھیں۔ وہ دونوں کھڑے ہوگیے۔ ایک لمحے کے لیے انہوں نے ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خاموشی سے اقرار محبت کیا۔ پھر للی کا نرم ہاتھ موہن کے سخت کھردرے اور مردانہ ہاتھ میں آگیا۔ اب ٹرین ان کی طرف دھڑدھڑاتی ہوئی آرہی تھی۔
ایک لمحہ، اور پھر وہ دونوں ریل کی پٹری پر کود جائیں گے۔ اس ٹرین کے بھاری پہیے ان کی مشکل آسان کردیں گے۔ موت کی گود میں ان کو ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ سلادیں گے۔ ان کی محبت کو امر کردیں گے۔
’’اے۔‘‘
ایک آواز نے ان کو چونکادیا اور اسی لمحے میں ٹرین آگئی اور ڈبے ان کے پاس سے گزرنے لگے۔ للی اور موہن نے مڑکر دیکھا تو یہ وہی ادھیڑ عمر کا میلا پاجامہ، پھٹی قمیص والا آدمی تھا۔۔۔ جو مسکراکر بھجیا کی پڑیا کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
’’اپنی بھجیا تو ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘اس نے چلاکر کہا۔
بھجیا! چٹ پٹی مسالے دار بھجیا! نہ جانے کیوں بھجیا کا نام سن کر ان دونوں کے منھ میں پانی آگیا۔
بھجیا!چٹ پٹی مسالے دار بھجیا!
اور اگر وہ مرگیے ہوتے تو بھجیا کیسے کھاتے؟
ٹھنڈا میٹھا فالودہ کیسے پیتے؟
چاندنی رات میں جوہو کے کنارے نرم نرم ریت کا لمس اپنے گالوں پر کیسے محسوس کرتے؟
مالابار ہل پر جاکر ہیگنگ گارڈن میں کھلے ہوئے پھولوں کا نظارہ کیسے کرتے؟
وہ بھجیا نہیں تھی، وہ زندگی تھی جو اپنی تمام رنگینیوں کے ساتھ چٹ پٹے مسالے کی خوشبو کے ساتھ ان کو واپس بلا رہی تھی۔
اترنے والے مسافر چڑھنے والے مسافروں سے دست و گریباں تھے۔۔۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔
موہن نے للی کے کان میں چلاکر کہا، ’’چلو، سول میرج کرلیں؟ کیوں منظور ہے؟‘‘
تو للی نے موہن کے کان میں چلاکر کہا، ’’ہاں ہاں منظور ہے۔‘‘
’’تو چلو، چرچ گیٹ چلیں۔‘‘اور یہ کہہ کر موہن نے للی کا ہاتھ پکڑا اور ڈبے میں گھسنے والی بھیڑ پر پل پڑا۔ کسی نہ کسی طرح وہ بھیڑ کے ریلے کے ساتھ اندر گھس ہی گیے۔
ٹرین چلی گئی۔۔۔ مگر وہ آدمی بنچ پر اسی جگہ بیٹھا رہا۔۔۔ وہ بجھیا اسی طرح پڑی رہی۔۔۔ پھر وہ آدمی آہستہ سے اپنی جگہ سے اٹھا اور بھجیا کی پڑیا اٹھا کر کھانے لگا۔۔۔ تب چائے والے نے اپنی دکان سے آواز دی، ’’کیوں چلےگیے وہ دونوں؟‘‘
’’ہاں چلے گیے۔‘‘
’’روز مجھ سے بھجیا لے کر کھاتے ہیں۔‘‘ چائے والے نے کہا۔
’’مگر اب وہ تمہاری بھجیا کھانے نہیں آئیں گے۔ اب وہ اپنے لیے خود چٹ پٹی مسالے دار بھجیا بنایا کریں گے۔‘‘
’’کیا تم ان کو جانتے ہو؟ کون ہیں یہ دونوں؟‘‘
اور وہ جو کھٹائی کی چٹنی میں ڈبوڈبوکر اور مزا لے لے کر بجھیا کھا رہا تھا۔ بولا، ’’لیلیٰ مجنوں۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.