عورت ذات
’’ایک ایسے شخص کی کہانی جس کی گھوڑوں کی ریس کے دوران ایک مہاراجہ سے دوستی ہو جاتی ہے۔ مہاراجہ ایک دن اسے اپنے یہاں پروجیکٹر پر کچھ شہوت انگیز فلمیں دکھاتا ہے۔ ان فلموں کو مانگ کر وہ شخص اپنے گھر لے جاتا ہے اور اپنی بیوی کو دکھاتا ہے۔ اس سے اس کی بیوی ناراض ہو جاتی ہے۔ بیوی کی ناراضگی سے وہ بہت شرمندہ ہوتا ہے۔ اگلے دن جب وہ دوپہر کے کھانے کے بعد آفس سے گھر آتا ہے تواسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی اپنی بہنوں اور سہیلیوں کے ساتھ پروجیکٹر پر وہی فلمیں دیکھ رہی ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
برقعے
کہانی میں برقعے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مضحکہ خیز صورت حال کو بیان کیا گیا ہے۔ ظہیر نامی نوجوان کو اپنے پڑوس میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے۔ لیکن اس گھر میں تین لڑکیاں ہیں اور تینوں برقعہ پہنتی ہیں۔ ظہیر خط کسی اور کو لکھتا ہے اور ہاتھ کسی اور کا پکڑتا ہے۔ اسی چکر میں اس کی ایک دن پٹائی ہو جاتی ہے اور پٹائی کے فوراً بعد اسے ایک رقعہ ملتا ہے کہ تم اپنی ماں کو میرے گھر کیوں نہیں بھیجتے۔ آج تین بجے سنیما میں ملنا۔
سعادت حسن منٹو
آم
’’یہ ایک ایسےبوڑھے پنشن یافتہ منشی کی کہانی ہے جو اپنی پنشن کے سہارے اپنے خاندان کی پرورش کر رہا ہے۔ اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی امیر لوگوں سے بھی جان پہچان ہے۔ لیکن ان امیروں میں دو لوگ ایسے بھی ہیں جو اسے بہت عزیز ہیں۔ ان کے لیے وہ ہر سال آم کے موسم میں اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف آم کے ٹوکرے بھجواتا ہے۔ مگر اس بار کی گرمی اتنی بھیانک تھی کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور اس کی موت ہو گئی۔ اس کے مرنے کی اطلاع جب ان دونوں امیرزادوں کو دی گئی تو دونوں نے ضروری کام کا بہانہ کر کے اس کے گھر آنے سے انکار کر دیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
انقلاب پسند
اس کہانی کا مرکزی کردار سلیم ایک فطری انقلاب پسند واقع ہوا ہے۔ وہ کائنات کی ہر شے حتی کہ اپنے کمرے کی ترتیب میں بھی انقلاب دیکھنا پسند کرتا ہے۔ وہ دنیا سے غربت، بے روزگاری، ناانصافی اور استحصالی نظام کا خاتمہ چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ بازاروں میں تقریریں کرتا ہے لیکن اسے پاگل سمجھ کر پاگل خانے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
خدا کی قسم
تقسیم کے دوران اپنی جوان اور خوبصورت بیٹی کے گم ہو جانے کے غم میں پاگل ہو گئی ایک عورت کی کہانی۔ اس نے اس عورت کو کئی جگہ اپنی بیٹی کو تلاش کرتےہوئے دیکھا تھا۔ کئی بار اس نے سوچا کہ اسے پاگل خانے میں داخل کرا دے، پر نہ جانے کیا سوچ کر رک گیا تھا۔ ایک روز اس عورت نے ایک بازار میں اپنی بیٹی کو دیکھا، لیکن بیٹی نے ماں کو پہچاننے سے انکار کر دیا۔ اسی دن اس شخص نے جب اسے خدا کی قسم کھا کر یقین دلایا کہ اس کی بیٹی مر گئی ہے، تو یہ سنتے ہی وہ بھی وہیں ڈھیر ہو گئی۔
سعادت حسن منٹو
انجام بخیر
تقسیم کے دوران ہوئے فسادات میں دہلی میں پھنسی ایک نوجوان طوائف کی کہانی ہے۔ فساد میں قتل ہونے سے بچنے کے لیے وہ پاکستان جانا چاہتی ہے، لیکن اسکی بوڑھی ماں دہلی چھوڑنا نہیں چاہتی۔ آخر میں وہ اپنے ایک پرانے استاد کے ساتھ خاموشی سے پاکستان چلی جاتی ہے۔ وہاں پہنچ کر وہ شرافت کی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ مگر جس عورت پر بھروسہ کرکے وہ اپنا نیا گھر آباد کرنا چاہتی تھی، وہی اس کا سودا کسی اور سے کر دیتی ہے۔ طوائف کو جب اس بات کا پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے گھنگھرو اٹھاکر واپس اپنے استاد کے پاس چلی جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
دیوانہ شاعر
یہ امرتسر کے جلیانوالا باغ میں ہوئے قتل عام پر مبنی افسانہ ہے۔ اس قتل عام کے بعد شہر میں بہت کچھ بدلا تھا۔ اس سے کئی انقلابی پیدا ہوئے تھے اور بہتوں نے انتقام کے لیے اپنی جانیں قربان کی تھیں۔ انہیں لوگوں میں ایک انقلابی شاعر بھی تھا، جس کی شاعری دل چیر دینے والی تھی۔ ایک روز شام کو ادیب کو وہ دیوانہ شاعر باغ کے ایک کنویں کے پاس ملا تھا، جہاں اس نے اس سے اپنے انقلابی ہو جانے کی داستان بیان کی تھی۔
سعادت حسن منٹو
شاردا
’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو طوائف کو طوائف کی طرح ہی رکھنا چاہتا ہے۔ جب کوئی طوائف اس کی بیوی بننے کی کوشش کرتی تو وہ اسے چھوڑ دیتا ۔ پہلے تو وہ شاردا کی چھوٹی بہن سے ملا تھا، پر جب اس کی شاردا سے ملاقات ہوئی تو وہ اسے بھول گیا۔ شاردا ایک بچہ کی ماں ہے اور دیکھنے میں قابل قبول ہے۔ بستر میں اسے شاردا میں ایسی لذت محسوس ہوتی ہے کہ وہ اسے کبھی بھول نہیں پاتا۔ شاردا اپنے گھر لوٹ جاتی ہے، تو وہ اسے دوبارہ بلا لیتا ہے۔ اس بار گھر آکر شاردا جب بیوی کی طرح اس کی دیکھ بھال کرنے لگتی ہے تو وہ اس سے اکتا جاتا ہے اور اسے واپس بھیج دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
ہارتا چلا گیا
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے جیتنے سے زیادہ ہارنے میں مزہ آتا ہے۔ بینک کی نوکری چھوڑکر فلمی دنیا میں اس نے بے حساب دولت کمائی تھی۔ یہاں اس نے اتنی دولت کمائی کی وہ جس قدر خرچ کرتا اس سے زیادہ کما لیتا۔ ایک روز وہ جوا کھیلنے جا رہا تھا کہ اسے عمارت کے نیچے گاہکوں کو انتظار کرتی ایک ویشیا ملی۔ اس نے اسے دس روپیے روز دینے کا وعدہ کیا، تاکہ وہ اپنا جسم بیچنے کادھندا بند کر سکے۔ کچھ دنوں بعد اس شخص نے دیکھا کہ وہ ویشیا پھر کھڑکی پر بیٹھی گاہک کا انتظار کر رہی ہے۔ پوچھنے پر اس نے ایسا جواب دیا کہ وہ شخص لا جواب ہو کر خاموش ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
چوری
یہ ایک ایسےبوڑھے بابا کی کہانی ہے جو الاؤ کے گرد بیٹھ کر بچوں کو اپنی زندگی سے وابستہ کہانی سناتا ہے۔ کہانی اس وقت کی ہے جب اسے جاسوسی ناول پڑھنے کا دیوانگی کی حد تک شوق تھا اور اس شوق کو پورا کرنےکے لیے اس نے کتابوں کی ایک دکان سے اپنی پسند کی ایک کتاب چرا لی تھی۔ اس چوری نے اس کی زندگی کو کچھ اس طرح بدلا کہ وہ ساری عمر کے لیے چور بن گیا۔
سعادت حسن منٹو
حامد کا بچہ
حامد نام کے ایک ایسے شخص کی کہانی، جو موج مستی کے لیے ایک طوائف کے پاس جاتا رہتا ہے۔ جلدی ہی اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ طوائف اس سے حاملہ ہو گئی ہے۔ اس خبر کو سن کر حامد ڈر جاتا ہے۔ وہ طوائف کو اس کے گاؤں چھوڑ آتا ہے۔ اس کے بعد وہ منصوبہ بناتا ہے کہ جیسے ہی بچہ پیدا ہوگا وہ اسے دفن کر دیگا۔ مگر بچہ کی پیدائش کے بعد جب وہ اسے دفن کرنے گیا تو اس نے ایک نظر بچہ کو دیکھا۔ بچہ کی شکل ہو بہو اس طوائف کے دلال سے ملتی تھی۔
سعادت حسن منٹو
پالی ہل کی ایک رات
ڈرامے کی شکل مٰیں لکھا گیا ایک ایسا افسانہ ہے جس کے سارے کردار علامتی ہیں۔ افراد خانہ جب عبادت کی تیاری میں مصروف تھا جبھی بارش میں بھیگتا ہوا ایک غیر ملکی جوڑا دروازے پر دستک دیتا ہے اور اندر چلا آتا ہے۔ بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ نو وارد کا تعلق ایران سے ہے۔ اس کے بعد واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو سب کچھ بدل کر رکھ دیتا ہے۔
قرۃالعین حیدر
پھندنے
افسانے کا موضوع جنس اور تشدد ہے۔ افسانے میں بیک وقت انسان اور جانور دونوں کو بطور کردار پیش کیا گیا ہے۔ جنسی عمل سے برآمد ہونے والے نتائج کو تسلیم نہ کر پانے کی صورت میں بلی کے بچے، کتے کے بچے، ڈھلتی عمر کی عورتیں، جن میں جنسی کشش باقی نہیں وہ سب کے سب موت کا شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
وقفہ
ماضی کی یادوں کے سہارے بے رنگ زندگی میں تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ افسانہ کا واحد متکلم اپنے مرحوم باپ کے ساتھ گزارے ہوے وقت کو یاد کر کے اپنی شکستہ زندگی کو آگے بڑھانے کی جد و جہد کر رہا ہے جس طرح اس کا باپ اپنی عمارت سازی کے ہنر سے پرانی اور اجاڑ عمارتوں کی مرمت کر کے قابل قبول بنا دیتا تھا۔ نیر مسعود کے دوسرے افسانوں کی طرح اس میں بھی خاندانی نشان اور ایسی مخصوص چیزوں کا ذکر ہے جو کسی کی شناخت برقرار رکھتی ہیں۔
نیر مسعود
حافظ حسین دین
یہ تعویز غنڈے کے سہارے لوگوں کو ٹھگنے والے ایک فرضی پیر کی کہانی ہے۔ حافظ حسین دین آنکھوں سے اندھا تھا اور ظفر شاہ کے یہاں آیا ہوا تھا۔ ظفر سے اس کا تعلق ایک جاننے والے کے ذریعے ہوا تھا۔ ظفر پیر اولیا پر بہت یقین رکھتا تھا۔ اسی وجہ سے حسین دین نے اسے مالی طور پر خوب لوٹا اور آخر میں اس کی منگیتر کو ہی لیکر فرار ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
مسٹر معین الدین
’’سماجی رسوخ اور ساکھ کے گرد گھومتی یہ کہانی معین نامی ایک شخص کی شادی شدہ زندگی پر مبنی ہے۔ معین نے زہرہ سے اس کے ماں باپ کے خلاف جاکر شادی کی تھی اور پھر کراچی میں آ ن بسا تھا۔ کراچی میں اس کی بیوی کا ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ معین کو یہ بات معلوم ہے۔ لیکن اپنی محبت اور معاشرتی ذمہ داری کا پاس رکھنے کے لیے وہ بیوی کو طلاق نہیں دیتا اور اسے اس کے عاشق کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب عاشق کی موت ہو جاتی ہے تو معین اسے طلاق دے دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
مس مالا
’’یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جو فلموں میں چھوٹے موٹے رول کے لیے لڑکیاں مہیا کرانے کے ساتھ ساتھ انکی دلالی بھی کرتی ہے۔ عظیم نے اپنے دوست بھٹساوے کو ایک فلم میں کام دلوایا تو بھٹساوے نے اس کی دعوت کرنی چاہی۔ اس کے لیے اس نے مالا کی مدد لی، جس نے اس فلم کے لیے گانے والی لڑکیوں کا انتظام کیا تھا۔ پھر بھٹساوے کے کہنے پر اس نے عظیم کو ایک کمسن لڑکی بھی مہیا کرا دی تھی۔ لیکن جب بھٹساوے نے مالا کو اپنے ساتھ سونے کے لیے کہا تو اس نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ تو اسے اپنا بھائی سمجھتی ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
پیتل کا گھنٹہ
کسی زمانے میں قاضی امام حسین اودھ کے تعلقدار تھے۔ علاقے میں ان کا دبدبہ تھا۔ کہانی کے ہیرو کی شادی کے وقت قاضی صاحب نے اسے اپنے ہاں آنے کی دعوت دی تھی۔ ایک عرصہ بعد ایک سفر کے دوران ان کے گاؤں کے پاس اس کی بس خراب ہو گئی تو وہ قاضی صاحب کے یہاں چلا گیا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ قاضی صاحب کا تو حلیہ ہی بدل گیا ہے، کہاں وہ عیش و عشرت اور اب قاضی صاحب پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ لیکن اپنی آن بان کا بھرم رکھنے اور مہمان کی تواضع کے لیے اپنا مہر لگا پیتل کا گھنٹہ بیچ دینا پڑتا ہے۔
قاضی عبد الستار
ملفوظات حاجی گل بابا بیکتاشی
یہ ایک تجرباتی کہانی ہے۔ اس کہانی میں سینٹرل ایشیا کی روایات، رسم و رواج اور مذہبی عقائد کو مرکزی خیال بنایا گیا ہے۔ کہانی بیک وقت حال سے ماضی میں اور ماضی سے حال میں چلتی ہے۔ یہ دور عثمانیہ کے کئی واقعات کو بیان کرتی ہے، جن میں پیر و مرشد ہیں اور ان کے مرید ہیں، فقیر ہیں اور ان کا خدا اور رسول سے روحانی رشتہ ہے۔ ایک اہم خاتون کردار جس کا شوہر لاپتہ ہو گیا ہے، اس کی تلاش کے لیے ایک ایسے ہی بابا سے ملنے ایک عورت کا خط لے کر جاتی ہے۔ وہ اس بابا کی روحانی کرشموں سے روبرو ہوتی ہے جنہیں عام طور پر انسان نظر انداز کر دیتا ہے۔
قرۃالعین حیدر
خاندانی کرسی
ایک ایسے شخص کی کہانی جو انیس برس بعد اپنے گھر لوٹتا ہے۔ اتنے عرصے میں اس کا گاؤں ایک قصبہ میں بدل گیا ہے اور جو لوگ اس کے کھیتوں میں کام کرتے تھے اب انکی بھی زندگی بدل گئی ہے اور وہ خوشحال ہیں۔ حویلی میں گھومتا ہوا وہ اپنے پرانے کمرے میں گیا تو وہاں اسے ایک کرسی ملی جو کسی زمانے میں خاندان کی شان ہوا کرتی تھی،اب کباڑ کے ڈھیر میں پڑی تھی۔ کرسی کی یہ حالت اور خاندان کی پرانی یادیں اسے اس حال میں لے آتی ہیں کہ وہ کرسی سے لپٹا ہوا اپنی آخری سانسیں لیتا ہے۔
مرزا ادیب
مزدور
ہمارا مہذب سماج مزدوروں کو انسان نہیں سمجھتا۔ ایک غریب مزدور طبیعت ٹھیک نہ ہونے کے باوجود مجبوری میں بجلی کے کھمبے پر چڑھ کر بجلی ٹھیک کر رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کا توازن بگڑتا ہے اور وہ نیچے آ رہتا ہے۔ کسی طرح اسے اسپتال پہنچایا جاتا ہے۔ ابھی اس کی سانسیں چل رہی ہیں کہ ڈاکٹر اسے مردہ اعلان کر دیتا ہے۔
احمد علی
بنارس کا ٹھگ
ایک ایسے فرد کی کہانی ہے جو بنارس سیر کے لیے آتا ہے تو اسے ہر جگہ وارانسی لکھا دکھائی دیتا ہے۔ شہر میں گھومتے ہوئے اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شہر میں جہاں ایک طرف بہت امیر لوگ ہیں وہیں دوسری طرف ایسے لوگ بھی ہیں جن کے تن پر کپڑے تک نہیں ہیں۔ سیر کرتے ہوئے وہ سارناتھ جاتا ہے، وہاں گوتم بدھ کی سونے کی مورتی دیکھتا ہے۔ سونے کی مورتی دیکھ کر اسے بہت غصہ آتا ہے اور وہ مورتی کو توڑ دیتا ہے۔ وہ شہر میں اسی طرح کے اور بھی تخریبی کام کرتا ہے۔ آخر میں اسے پولس پکڑ لیتی ہے اور پاگل خانے کو سونپتے وقت جب اسکا نام پوچھا جاتا ہے تو وہ اپنا نام کبیر بتاتا ہے۔
خواجہ احمد عباس
روپا
یہ کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جس کا باپ رجب اودھ کی گڑھی کی سیاست میں کافی پھل پھول گیا۔ اس نے اپنے بیٹے حسین کو بھی اپنی طرح پہلوان بنایا تھا مگر اسے اپنے باپ کے دشمن منور کی بیٹی روپا سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس محبت میں رجب کی جان چلی جاتی پے لیکن حسین روپا کو اپنے گھر لانے میں کامیاب رہتا ہے۔ روپا سے اس نے شادی تو کرلی تھی لیکن اس کے دل میں جگہ نہیں بنا سکا تھا کیونکہ روپا کو اس کا دبلا جسم پسند نہ تھا۔ پھر اچانک ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے روپا اس سے محبت کرنے لگتی ہے۔
قاضی عبد الستار
فاصلے
ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں تنہا رہتے ہوئے بور ہو گیا ہے اور سکون کی تلاش میں ہے۔ ایک دن وہ گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر اور سامان بیچتے دوکاندار سے بات کرنا اسے اچھا لگا۔ اس طرح وہ وہاں روز آنے لگا اور اپنا وقت گزارنے لگا۔ ایک دن انگلینڈ سے واپس آیا بیٹا اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ کافی وقت کے بعد جب وہ واپس آتا ہے اور پھر سے اپنی گلی میں نکلتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے لیے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آگئی ہے، شاید وہ ان کے لیے ایک اجنبی بن چکا تھا۔
مرزا ادیب
ماڈل ٹاؤن
حسد کی آگ میں جلتے ایک نوجوان کی کہانی۔ نوجوان جانتا ہے کہ جس لڑکی سے وہ شادی کر رہا ہے وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور نوکری کے لالچ میں اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اور ماڈل ٹاون میں بس جاتا ہے۔ ایک روزاس نوجوان کی اس شخص سے ملاقات دوران سفر بس میں ہو جاتی ہے۔ وہ شخص آئندہ بھی اس سے ملاقات کا وعدہ کرتا ہے لیکن پھر کبھی ملاقات نہیں ہوتی۔ وہ نوجوان ہمیشہ اپنی بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آگے کا حال جاننے کے لیے کہانی کو پڑھنا ہوگا۔