دو قومیں
’’یہ کہانی مذہب اور محبت دونوں نکتوں پر یکساں طور پر بحث کرتی نظر آتی ہے۔ مختار اور شاردا دونوں ایک دوسرے کو بے پناہ محبت کرتے ہیں مگر جب شادی کی بات آتی ہے تو دونوں اپنے اپنے مذہب پر بضد ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ان کی محبت تو پیچھے رہ جاتی ہے اور مذہب ان پر حاوی ہو جاتا ہے۔ دونوں اپنے اپنے راستے واپس چلے جاتے ہیں۔‘‘
سعادت حسن منٹو
آوارہ گرد
دنیا کی سیر پر نکلے ایک جرمن لڑکے کی کہانی۔ وہ پاکستان سے ہندوستان آتا ہے اور بمبئی میں ایک سفارشی میزبان کے یہاں قیام کرتا ہے۔ رات کو کھانے کی میز پر وہ اپنے میزبان سے جرمنی، دوسری عالمی جنگ، نازی اور اپنے ماضی کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ ہندوستان سے وہ شری لنکا جاتا ہے، دوران سفر ایک سنگھلی بودھ اس کا دوست بن جاتا ہے۔ وہ دوست اسے ندی میں نہانے کی دعوت دیتا ہے اور خود ڈوب کر مر جاتا ہے۔ لنکا سے ہوتا ہوا وہ سیلانی لڑکا ویتنام جاتا ہے۔ ویتنام میں جنگ جاری ہے اور جنگ کی ایک گولی اس یوروپی آوارہ گرد نوجوان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔