آرٹسٹ لوگ
اس افسانہ میں آرٹسٹ کی زندگی کا المیہ بیان کیا گیا ہے۔ جمیلہ اور محمود اپنے فن کی بقا کے لئے مختلف طرح کے جتن کرتے ہیں لیکن باذوق لوگوں کی قلت کی وجہ سے فن کی آبیاری مشکل امر محسوس ہونے لگتا ہے۔ حالات سے پریشان ہو کر معاشی آسودگی کے لیے وہ ایک فیکٹری میں کام کرنے لگتے ہیں۔ لیکن دونوں کو یہ کام آرٹسٹ کے رتبہ کے شایان شان محسوس نہیں ہوتا اسی لیے دونوں ایک دوسرے سے اپنی اس مجبوری اور کام کو چھپاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
اب اور کہنے کی ضرورت نہیں
مناسب اجرت لیکر دوسروں کی جگہ جیل کی سزا کاٹنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی جو لوگوں سے پیسے لے کر ان کے کئے جرم کو اپنے سر لے لیتا ہے اور جیل کی سزا کاٹتا ہے۔ ان دنوں جب وہ جیل کی سزا کاٹ کر آیا تھا تو کچھ ہی دنوں بعد اس کی ماں کی موت ہو گئی تھی۔ اس وقت اس کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کہ وہ اپنی ماں کے کفن دفن کا انتظام کر سکے۔ تبھی اسے ایک سیٹھ کا بلاوا آتا ہے، پر وہ جیل جانے سے پہلے اپنی ماں کو تجہیز و تکفین کرنا چاہتا ہے۔ سیٹھ اس کے لیے اسے منع کرتا ہے۔ جب وہ سیٹھ سے بات طے کرکے اپنے گھر لوٹتا ہے تو سیٹھ کی بیٹی اس کے آنے سے قبل اس کی ماں کے کفن دفن کا انتظام کر چکی ہوتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
آم
’’یہ ایک ایسےبوڑھے پنشن یافتہ منشی کی کہانی ہے جو اپنی پنشن کے سہارے اپنے خاندان کی پرورش کر رہا ہے۔ اپنے اچھے اخلاق کی وجہ سے اس کی امیر لوگوں سے بھی جان پہچان ہے۔ لیکن ان امیروں میں دو لوگ ایسے بھی ہیں جو اسے بہت عزیز ہیں۔ ان کے لیے وہ ہر سال آم کے موسم میں اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف آم کے ٹوکرے بھجواتا ہے۔ مگر اس بار کی گرمی اتنی بھیانک تھی کہ وہ برداشت نہ کر سکا اور اس کی موت ہو گئی۔ اس کے مرنے کی اطلاع جب ان دونوں امیرزادوں کو دی گئی تو دونوں نے ضروری کام کا بہانہ کر کے اس کے گھر آنے سے انکار کر دیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
پریم کہانی
محبت کرنا جتنا ضروری ہے اس کا اظہار بھی اسی قدر ضروری ہے۔ اگر محبت کا اظہار نہیں ہوا تو آپ اپنے ہاتھوں محبت کا قتل کر دیں گے۔ یہ کہانی بھی ایسی ہی ایک محبت کے قتل کی داستان ہے۔ ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو کسی لڑکی سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن اپنی کم ہمتی کے باعث اس لڑکی سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی اس سے دور چلی جاتی ہے۔
احمد علی
باسط
مختلف وجہوں سے باسط اس لڑکی سے شادی پر رضامند نہیں تھا جس لڑکی سے اس کی ماں اس کی شادی کرانا چاہتی تھیں۔ بالآخر اس نے ہتھیار ڈال دیے۔ شادی کے بعد باسط کی بیوی سعیدہ ہر وقت خوفزدہ اور چپ چپ سی رہتی تھی جسے ابتدا میں باسط نے نیے ماحول اور سسرال کی جھجھک پر محمول کیا۔ لیکن ایک دن غسل خانہ میں جب سعیدہ کا حمل ضائع ہوا تب باسط کو صحیح صورت حال کا اندازہ ہوا۔ باسط نے سعیدہ کو معاف کر دیا لیکن باسط کی ماں نامکمل بچہ دیکھ کر برداشت نہ کر سکی اور دنیا سے چل بسی۔
سعادت حسن منٹو
اندھی محبت
کسی حادثے میں نابینا ہوئی ایک لڑکی کی داستان ہے۔ جو ڈاکٹر اس کا علاج کر رہا ہے، لڑکی کو اس ڈاکٹر سے محبت ہو جاتی ہے اور بالآخر ان کی شادی ہو جاتی ہے۔ لڑکی کے آنکھوں کے آپریشن کے بعد جب وہ اپنے شوہر کو دیکھتی ہے تو اسے دیکھ کر اتنی حیران ہوتی ہے کہ وہ دل ہی دل میں دعا کرتی ہے کہ کاش اسکی آنکھیں ٹھیک نہیں ہوئی ہوتیں۔ لڑکی کی یہ حالات دیکھ کر اس کا ڈاکٹر شوہر اسے اپنے معاون کے حوالے کر اس کی زندگی سے چلا جاتا ہے۔
حجاب امتیاز علی
بڈھا کھوسٹ
یہ ایک بوڑھے کرنل کے عشق کی کامرانیوں کی داستان ہے۔ کرنل عثمانی ایک بوڑھا آدمی تھا جسے سلیم جیسا جوان آدمی بڈھا کھوسٹ اور غیر ضروری شے سمجھتا تھا لیکن ایک دن انہوں نے دیکھا کہ کرنل عثمانی اس کی محبوبہ آئرن کا بوسہ لے رہے ہیں تو سلیم کو لگا کہ وہ خود کرنل عثمانی سے زیادہ بڈھا کھوسٹ ہے۔
سعادت حسن منٹو
حامد کا بچہ
حامد نام کے ایک ایسے شخص کی کہانی، جو موج مستی کے لیے ایک طوائف کے پاس جاتا رہتا ہے۔ جلدی ہی اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ طوائف اس سے حاملہ ہو گئی ہے۔ اس خبر کو سن کر حامد ڈر جاتا ہے۔ وہ طوائف کو اس کے گاؤں چھوڑ آتا ہے۔ اس کے بعد وہ منصوبہ بناتا ہے کہ جیسے ہی بچہ پیدا ہوگا وہ اسے دفن کر دیگا۔ مگر بچہ کی پیدائش کے بعد جب وہ اسے دفن کرنے گیا تو اس نے ایک نظر بچہ کو دیکھا۔ بچہ کی شکل ہو بہو اس طوائف کے دلال سے ملتی تھی۔
سعادت حسن منٹو
شانتی
اس کہانی کا موضوع ایک طوائف ہے۔ کالج کے دنوں میں وہ ایک نوجوان سے محبت کرتی تھی۔ جس کے ساتھ وہ گھر سے بھاگ آئی تھی۔ مگر اس نوجوان نے اسے دھوکہ دیا اور وہ دھندا کرنے لگی تھی۔ بمبئی میں ایک روز اس کے پاس ایک ایسا گراہک آتا ہے، جسے اس کے جسم سے زیادہ اس کی کہانی میں دلچسپی ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے شانتی کی کہانی آگے بڑھتی ہے وہ شخص اس میں ڈوبتا جاتا ہے اور آخر میں شانتی سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
گلگت خان
یہ ہوٹل میں کام کرنے والے ایک بیحد بدصورت نوکر کی کہانی ہے۔ اس کی بدصورتی کی وجہ سے اس کا مالک اسے پسند کرتا ہے اور نہ ہی وہاں آنے والے گاہک۔ اپنی محنت اور اخلاق سے وہ سبھی کا عزیز بن جاتا ہے۔ اپنے اکیلے پن کو دور کرنے کے لیے وہ مالک کی ناپسندیدگی کے باوجود ایک کتے کا پلا پال لیتا ہے۔ بڑا ہونے پر کتے کو پیٹ کی کوئی بیماری ہو جاتی ہے، تو اسے ٹھیک کرنے کے لیے گلگت خان چوری سے اپنے مالک کا بٹیر مارکر کتے کو کھلا دیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
کتے کی دعا
یہ افسانہ ایک کتے کی اپنے مالک کے لیے وفاداری کی ایک انوکھی داستان بیان کرتا ہے۔ اس شخص نے اپنی اور اپنے کتےگولڈی کی کہانی سناتے ہوئے بیتی زندگی کے کئی واقعات کا ذکر کیا۔ ان واقعات میں ان دونوں کے آپسی تعلقات اور ایک دوسرے کے لیے لگاؤ کے بارے میں کئی نصیحت آمیز قصے تھے۔ مگر حقیقی کہانی تو یہ تھی کہ جب ایک بارکتے کا مالک بیمار پڑا تو کتے نے اس کے لیے ایسی دعا مانگی کہ مالک تو ٹھیک ہو گیا، لیکن کتا اپنی جان سے جاتا رہا۔
سعادت حسن منٹو
کوٹ پتلون
معاشی بدحالی سے جوجھ رہے ایک ایسے آدمی کی کہانی ہے جسے ’اخلاقی‘ اور ’غیر اخلاقی‘ کی کشمکش کھل کھیلنے کا موقع نہیں دیتی۔ ناظم ایک ایسی بلڈنگ میں رہتا ہے جہاں ایک عورت کی پسندیدگی کا معیار ’’کوٹ پتلون‘‘ ہے۔ قرض بڑھنے کی وجہ سے اسے اپنا کوٹ پتلون بیچنا پڑتا ہے اور بلڈنگ خالی کرنی پڑتی ہے۔ ناظم جس دن مکان چھوڑ کر جا رہا ہوتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ زبیدہ کی نگاہوں کا مرکز ایک اور نوجوان ہے جو کوٹ پتلون میں ملبوس ہے۔
سعادت حسن منٹو
جان محمد
انسان کی نفسیاتی پیچیدگیوں اور تہہ در تہہ پوشیدہ شخصیت کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ جان محمد منٹو کے ایام علالت میں ایک مخلص تیماردار کے روپ میں سامنے آیا اور پھر بے تکلفی سے منٹو کے گھر آنے لگا۔ لیکن دراصل وہ منٹو کے پڑوس کی لڑکی شمیم کے چکر میں آتا تھا۔ ایک دن شمیم اور جان محمد گھر سے فرار ہو جاتے ہیں، تب اس کی حقیقت پتا چلتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
ڈالن والا
یہ کہانی بچپن کی یادوں کے سہارے اپنے گھر اور گھر کے وسیلے سے ایک پورے علاقے اور اس علاقے کے ذریعے سماج کے مختلف اشخاص کی زندگی کی چلتی پھرتی تصویریں پیش کرتی ہے۔ سماج کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے، علاحدہ عقائد اور ایمان رکھنے والے لوگ ہیں جو اپنے مسائل اور مراتب سے بندھے ہوئے ہیں۔
قرۃالعین حیدر
اولڈ ایج ہوم
آرام و سکون کا طالب ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو سوچتا تھا کہ سبکدوشی کے بعد اطمینان سے گھر میں رہیگا، مزے سے اپنی پسند کی کتابیں پڑھےگا لیکن ساتھ رہ رہے دیگر افراد خانہ کے علاوہ اپنے پوتے پوتیوں کے شور غل سے اسے اوب ہونے لگی اور وہ گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم رہنے چلا جاتا ہے۔ وہاں اپنے سے پہلے رہ رہے ایک شخص کا ایک خط اسے ملتا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ اس خط کو پڑھ کر اسے اپنے بچوں کی یاد آتی ہے اور وہ واپس گھر لوٹ جاتا ہے۔
مرزا ادیب
قیدی کی سرگزشت
افسانہ جیل کے ایسے قیدی کی داستان بیان کرتا ہے جو سیاسی مجرم ہے۔ قید میں باہری دنیا اور گزری ہوئی زندگی کو یاد کرکے وہ اداس ہو جاتا ہے۔ پھر ایک روز اس کے پاس ایک بلی کا بچہ آ جاتا ہے، بلی کا بچہ اسکے ساتھ رہنے لگتا ہے۔ ایک دن اس قیدی کی طبیعت اچانک خراب ہوتی ہے اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ صبح جب سنتری اسے دیکھنے آتا ہے تو پاتا ہے کہ قیدی کی ساتھ بلی کا بچہ بھی مرا ہوا ہے۔