آخری سلیوٹ
آزادی ہند کے بعد کشمیر کے لیے دونوں ملکوں میں ہونے والی پہلی جنگ کے مناظر کو پیش کیا گیا ہے۔ کہ کس طرح دونوں ملک کے فوجی جذباتی طور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں لیکن اپنے اپنے ملک کے آئین اور قانون کے پابند ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے پر حملہ کرنے پر مجبور ہیں۔ وہی لوگ جو جنگ عظیم میں متحد ہو کر لڑے تھے وہ اس وقت الگ الگ ملک میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔
سعادت حسن منٹو
بدصورتی
اس افسانہ میں دو بہنوں، حامدہ اور ساجدہ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ ساجدہ بہت خوبصورت ہے، جبکہ حامدہ بہت بدصورت۔ ساجدہ کو ایک لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے، تو حامدہ کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس بات کو لے کر ان دونوں کے درمیان جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ پھر دونوں بہنیں صلح کر لیتی ہے اور ساجدہ کی شادی حامد سے ہو جاتی ہے۔ ایک سال بعد ساجدہ اپنے شوہر کے ساتھ حامدہ سے ملنے آتی ہے۔ رات کو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ صبح ہوتے ہی حامد ساجدہ کو طلاق دے دیتا ہے اور کچھ عرصہ بعد حامدہ سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
سو کینڈل پاور کا بلب
اس افسانہ میں انسان کی جبلی اور جذباتی پہلووں کو گرفت میں لیا گیا ہے جن کے تحت ان سے اعمال سرزد ہوتے ہیں۔ افسانے کی مرکزی کردار ایک طوائف ہے جسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ وہ کس کے ساتھ رات گزارنے جا رہی ہے اور اسے کتنا معاوضہ ملے گا بلکہ وہ دلال کے اشارے پر عمل کرنے اور کسی طرح کام ختم کرنے کے بعد اپنی نیند پوری کرنا چاہتی ہے۔ آخر کار تنگ آکر انجام کی پروا کیے بغیر وہ دلال کا خون کر دیتی ہے اور گہری نیند سو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
رضو باجی
ایک عرصے بعد رض٘و باجی کا خط آتا ہے، وہی رض٘و جو پندرہ سال قبل ہمارے علاقے کا مشہور محرم دیکھنے آئی تھی۔ اسی محرم کے میلے میں ان کی ملاقات کہانی کے ہیرو سے ہوتی ہے اور وہیں ایک ایسا احساس پروان چڑھا کہ رض٘و باجی پھر تا عمر کسی کا نہ ہونے دیا۔ ماں کے جیتے جی کوئی رشتہ قبول نہیں کیا۔ باپ کے لقوہ زدہ ہو جانے پر رضو باجی نے ایک رشتہ قبول کیا لیکن عین نکاح سے قبل ان پر جنات آنے لگے اور وہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا۔ اسکے بعد رض٘و باجی نے کبھی کسی رشتے کے بارے میں سوچنا بھی گوارہ نہ کیا۔ محرم میں ہوئے اس پہلے پیار کو وہ بھول نہیں سکی تھیں۔
قاضی عبد الستار
نعرہ
یہ افسانہ ایک متوسط طبقہ کے آدمی کی انا کو ٹھیس پہنچنے سے ہونے والی درد کو بیاں کرتا ہے۔ بیوی کی بیماری اور بچوں کے اخراجات کی وجہ سے وہ مکان مالک کو پچھلے دو مہینے کا کرایہ نہیں دے پایا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مالک مکان اسے ایک مہینے کی اور مہلت دے دے۔ اس درخواست کے ساتھ جب وہ مالک مکان کے پاس گیا تو اس نے اس کی بات سنے بغیر ہی اسے دو گندی گالیاں دیں۔ ان گالیوں کو سن کر اسے بہت تکلیف ہوئی اور وہ مختلف خیالوں میں گم شہر کے دوسرے سرے پر جا پہنچا۔ وہاں اس نے اپنی پوری قوت سے ایک ’نعرہ‘ لگایا اور خود کو بہت ہلکا محسوس کرنے لگا۔
سعادت حسن منٹو
موم بتی کے آنسو
یہ غربت کی زندگی گزارتی ایک ایسی ویشیا کی کہانی ہے جس کے گھر میں اندھیرا ہے۔ طاق میں رکھی موم بتی موم کے آنسو بہاتی ہوئی جل رہی ہے۔ اس کی چھوٹی بچی موتیوں کا ہار مانگتی ہے تو وہ فرش پر جمے موم کو دھاگے میں پرو کر مالا بناکر اس کے گلے میں پہنا دیتی ہے۔ رات میں اس کا گاہک آتا ہے۔ اس سے الگ ہونے پر وہ تھک جاتی ہے، تبھی اسے اپنی بچی کا خیال آتا ہے اور وہ اس کے چھوٹے پلنگ کے پاس جاکر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
رشوت
’’ایک نوجوان کی زندگی کے تلخ تجربوں کی کہانی ہے۔ نوجوان نے جب بی۔ اے پاس کیا تو اس کے باپ کا ارادہ تھا کہ وہ اسے اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجیں گے۔ اس درمیان اس کے باپ کو جوا کھیلنے کی عادت پڑ گئی اور وہ اپنا سب کچھ جوئے میں ہار کر مر گیا۔ نوجوان خالی ہاتھ جد و جہد کرنے لگا۔ وہ جہاں بھی نوکری کے لیے جاتا، سب جگہ اس سے رشوت مانگی جاتی۔ آخر میں پریشان ہو کر اس نے اللہ کو ایک خط لکھا اور اس خط کے ساتھ رشوت کے طور پر وہ تیس روپیے بھی ڈال دیے، جو اس نے مزدوری کر کے کمائے تھے۔ اس کا یہ خط ایک اخبار کے ایڈیٹر کے پاس پہنچ جاتا ہے، جہاں سے اسے دو سو روپیے ماہوار کی تنخواہ پر نوکری کے لیے بلاوا آ جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
شاہ دولے کا چوہا
مذہب کے نام پر گورکھ دھندہ کرنے والوں کی کہانی ہے۔ شاہ دولے کے مزار کے بارے میں یہ عقیدہ رائج کر دیا گیا تھا کہ یہاں منت ماننے کے بعد اگر بچہ ہوتا ہے تو پہلا بچہ شاہ دولے کا چوہا ہے اور اسے مزار پر چھوڑنا ضروری ہے۔ سلیمہ کو اپنا پہلا بچہ مجیب اسی عقیدے کے تحت مجبوراً چھوڑنا پڑا۔ لیکن وہ اس کا غم سینے سے لگائے رہی۔ ایک مدت کے بعد جب مجیب اس کے دروازے پر شاہ دولے کا چوہا بن کر آتا ہے تو سلیمہ اسے فوراً پہچان لیتی ہے اور تماشا دکھانے والے سے پانچ سو کے عوض اسے لے لیتی ہے۔ لیکن جب وہ پیسے دے کر واپس اندر آتی ہے تو مجیب غائب ہو چکا ہوتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
مسز گل
ایک ایسی عورت کی زندگی پر مبنی کہانی ہے جسے لوگوں کو تل تل کر مارنے میں لطف آتا ہے۔ مسز گل ایک ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ اس کی تین شادیاں ہو چکی تھیں اور اب وہ چوتھی کی تیاریاں کر رہی تھی۔ اس کا ہونے والا شوہر ایک نوجوان تھا۔ لیکن اب وہ دن بہ دن پیلا پڑتا جا رہا تھا۔ اس کے یہاں کی نوکرانی بھی تھوڑا تھوڑا کرکے گھلتی جا رہی تھی۔ ان دونوں کے مرض سے جب پردہ اٹھا تو پتہ چلا کہ مسز گل انہیں ایک جان لیوا نشیلی دوا تھوڑا تھوڑا کرکے روز پلا رہی تھیں۔
سعادت حسن منٹو
نفسیاتی مطالعہ
ایک ایسی ادیبہ کی داستان اس کہانی میں بیان کی گئی ہے جو مردوں کی نفسیات پر لکھنے کے لیے مشہور ہے۔ کچھ ادیب دوست بیٹھے ہو ئے اسی مصنفہ بلقیس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ ادیب جس گھر میں بیٹھے ہیں اس گھر کی خاتون بلقیس کی دوست ہے۔ دوران گفتگو ہی فون آتا ہے اور وہ خاتون بلقیس سے ملنے چلی جاتی ہے۔ بلقیس اسے بتاتی ہے کہ وہ گھر میں سفیدی کر رہے ایک مزدور کی نفسیات کا مطالعہ کر رہی تھی کہ اسی درمیان اس مزدور نے اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا۔
سعادت حسن منٹو
شغل
’’یہ کہانی امیروں کے شوق اور ان کی دلچسپیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک پہاڑی علاقے میں کچھ مزدور پتھر صاف کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ وہاں سڑک سے گزر نے والی طرح طرح کی لاریاں ہی ان کے تفریح کا ذریعہ تھیں۔ ایک روز وہاں ایک نئی گاڑی آکر رکی، اس میں سے دو نوجوان اترے اور ایک چمار کی بیٹی کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر چل دیے۔ ٹھیکیدار نے ان نوجوانوں کے رسوخ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تو اپنے شوق کے لیے اس لڑکی کو لے جا رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد اسے چھوڑ جا ئینگے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
سندرتا کا راکشس
یہ سماج میں عورتوں کے برابری کے حقوق کے ڈسکورس کے گرد گھومتی کہانی ہے، جس میں دو لڑکیاں ایک سوامی کے پاس عورت کی غیر برابری کا سوال لیکر جاتی ہیں۔ مگر وہاں ان کی سوامی سے تو ملاقات نہیں ہوتی، ان کے شاگرد ملتے ہیں۔ ان میں سے ایک انہیں رانی وجیونتی کی کہانی کے ذریعے بتاتا ہے کہ مرد عورت کو دیوی بنا سکتا ہے، اس کی سندرتا کے لیے اس کی پوجا کر سکتا ہے۔ اس پر جان تک نیوچھاور کر سکتا ہے۔ مگر کبھی اسے اپنے برابر نہیں سمجھ سکتا ہے۔
ممتاز مفتی
اے رود موسیٰ
یہ ایک ایسی خوددار لڑکی کی کہانی ہے، جو دنیا کی ٹھوکروں میں رلتی ہوئی ویشیا بن جاتی ہے۔ تقسیم کے دوران ہوئے فسادات میں اس کے باپ کے مارے جانے کے بعد اس کی اور اس کی ماں کی ذمہ داری اس کے بھائی کے سر آگئی تھی۔ ایک روز وہ بہن کے ساتھ اپنے باس سے ملنے گیا تھا تو انہوں نے اس سے اس کا ہاتھ مانگ لیا تھا۔ مگر اگلے روز باس کے باپ نے بھی اس سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ اس نے اس خواہش کو ٹھکرا دیا تھا اور گھر سے نکل بھاگی۔
واجدہ تبسم
نکاح ثانی
’’ایک ایسی خاتون کی کہانی ہے، جسے ایک خط کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ اس کا شوہر اس کے ساتھ بیوفائی کر رہا ہے۔ خط کو پڑھنے کے بعد اسے وہ سب راتیں یاد آتی ہیں جب اس کا شوہر کسی نہ کسی بہانے سے رات کو گھر سے باہر چلا جاتا تھا۔ اس رات بھی جب اس کا شوہر گھر نہیں لوٹا تو وہ برقعہ اوڑھ کر اس کسبی کے گھر پہنچ جاتی ہے، جس کا پتہ اس خط میں لکھا تھا۔‘‘
سجاد حیدر یلدرم
خاں صاحب
’’کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے، جو بہت دین دار ہے۔ مگر اتنا کنجوس ہے کہ اس کی بیوی بیٹی بہت مفلسی میں گزارا کرتی ہیں۔ اس کی بیوی بیٹی کو اچھی پرورش کے لیے ایک عورت کے پاس چھوڑ دیتی ہے، تو بدلے میں وہ اس عورت سے پیسے بھی مانگتا ہے۔ عورت پیسے تو نہیں دیتی، ہاں ایک پڑھے لکھے لڑکے سے اس کا رشتہ طے کر دیتی ہے۔ مگر کم مہر اور نقد نہ ملنے کی وجہ سے وہ دھوکے سے اپنی بیٹی کی شادی ایک امیر اور ادھیڑ عمر کے شخص سے کرا دیتا ہے۔‘‘
محمد مجیب
خون کی ایک بوتل
روزگار کی تلاش میں اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے ایسےفرد کی کہانی جس کی ماں بیمار ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کے جسم میں خون کی کمی بتائی۔ وہ بلڈ بینک گیا تو وہاں موجود شخص نے کہا کہ اس گروپ کا خون نہیں ہے۔ اسے وہ ایک دوسرے شخص کا پتہ دیتے ہوئے وہاں سے خون لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ دریں اثنا اس کی ماں کی موت ہو جاتی ہے۔ نوکری کی تلاش میں گھومتے ہوئے اس شخص کی ملاقات اسی خون دینے والے شخص سے ہوتی ہے جو اس بلڈ بینک والے شخص کے ساتھ پارٹنرشپ میں کام کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
مرزا ادیب
محبت یا ہلاکت؟
کہانی ایک ایسے شخص کی داستان کو بیان کرتی ہے جو اپنی چچازاد بہن سے بہت محبت کرتا ہے۔ یکبارگی وہ چچازاد بیمار پڑ جاتی ہے اور اسکے علاج کے لیے ایک نوجوان ڈاکٹر آنے لگتا ہے۔ چچازاد ڈاکٹر کی جانب مائل ہونے لگتی ہے اور اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیتی ہے۔ اس کے اس فیصلے پر اس کا چچازاد بھائی اپنے رقیب ڈاکٹر کا قتل کر دیتا ہے۔
حجاب امتیاز علی
ظالم محبت
یہ ایک عورت اور دو مردوں کی کہانی ہے۔ پہلا مرد عورت سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور دوسرے مرد کو یہ خبر تک نہیں کہ وہ عورت اسے چاہتی ہے۔ ایک دن وہ دوسرے مرد کے پاس جاتی ہے اور اسکے سامنے اپنے دل کی بات کو ایک افسانے کے پلاٹ کے طور پر پیش کرتے ہوئے اس الجھن کا حل اس مرد سے پوچھتی ہے۔
حجاب امتیاز علی
مزدور
’’یہ سماج کے سب سے مضبوط اور بے بس ستون ایک ایسے مزدور کی کہانی ہے، جو شب و روز خون پسینہ بہاکر کام کرتا ہے۔ مگر اس کی اتنی آمدنی بھی نہیں ہو پاتی کہ اپنے بچوں کو بھر پیٹ کھانا کھلا سکے یا اپنی بیمار بیوی کی دوا خرید سکے۔ وہ فیکٹری مالک سے بھی درخواست کرتا ہے، لیکن وہاں سے بھی اسے کوئی مدد نہیں ملتی۔‘‘
سدرشن
آنکھیں
یہ کہانی مغل شہنشاہ جہانگیر کی ہے، جس میں مغل سلطنت کی سیاست، بادشاہوں کی محفل اور ان محفلوں میں ملنے والوں کا تانتا ہے، انھیں ملنے والوں میں جہانگیر کی ملاقات ایک ایسی لڑکی سے ہوتی ہے جس کی آنکھیں انھیں مسحور کر دیتی ہیں۔ صایمہ بیگم کی آنکھیں ایسی ہیں کہ دیکھنے والے کے دل و دماغ میں براہ راست پیوست ہو جاتی ہیں اور بادشاہ جہانگیر کے ذہن پر ہر وقت ان آنکھوں کا تصور چھایا رہتا ہے۔
قاضی عبد الستار
شاہی رقاصہ
ایک ایسی رقاصہ کی داستان جو محل کی زندگی سے اوب کر آزادی کے لیے بے چین رہتی ہے۔ وہ جب بھی باہر نکلتی ہے وہاں لوگوں کو ہنستے گاتے اپنی مرضی کی زندگی گزارتے دیکھتی ہے تو اسے اپنی زندگی سے نفرت ہونے لگتی ہے۔ اسے وہ محل کسی سونے کے پنجرے کی طرح لگتا ہے اور وہ خود کو اس میں قید چڑیا کی طرح تصور کرتی ہے۔
مرزا ادیب
کنول
’’ایک برہمن لڑکی کی کہانی ہے، جسے ایک مسلم لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔ چونکہ لڑکا الگ مذہب اور ذات کا تھا اسلیے لڑکی اس سے شادی کرنے سے انکار تو کر دیتی ہے لیکن وہ ایک پل کے لیے بھی اسے بھول نہیں پاتی۔ اس لڑکی کی شادی کہیں اور ہو جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھی اپنی اس محبت کے بارے میں سچ سچ بتا دیتی ہے۔ یہ سچائی جان کر اس کے شوہر کی اس صدمے سے موت ہو جاتی ہے اور وہ لڑکی اپنے عاشق کے پاس لوٹ جاتی ہے۔‘‘
اعظم کریوی
نازو
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو صحنچی نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بیوی نازو کو طلاق دے دیتا ہے۔ حالانکہ اس نے شادی ہی اسلیے کی تھی کہ وہ بہت خوبصورت تھی اور اسے لگتا تھا کہ اسی کے پاس صحنچی ہے، مگر اس کے جانے کے بعد جب اس نے پرانے صندوق کو کھلوا کر دیکھا تو صحنچی اسی صندوق میں سے بر آمد ہوئی ۔