احمد سلمان
غزل 4
اشعار 5
جو دکھ رہا اسی کے اندر جو ان دکھا ہے وہ شاعری ہے
جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سب نے مانا مرنے والا دہشت گرد اور قاتل تھا
ماں نے پھر بھی قبر پہ اس کی راج دلارا لکھا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میں ہوں بھی تو لگتا ہے کہ جیسے میں نہیں ہوں
تم ہو بھی نہیں اور یہ لگتا ہے کہ تم ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
تصویری شاعری 1
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا انہیں درختوں پہ اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا جب اس کے کمرے سے لاش نکلی خطوط نکلے تو لوگ سمجھے وہ خواب تھے ہی چنبیلیوں سے سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت پھر اک چنبیلی کی اوٹ میں سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا جب ان کے بچے جو شہر جاکر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے