Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کشمکش پر اشعار

اپنی فکر اور سوچ کے

دھاروں سے گزر کر کلی طور سے کسی ایک نتیجے تک پہنچنا ایک ناممکن سا عمل ہوتاہے ۔ ہم ہر لمحہ ایک تذبذب اور ایک طرح کی کشمکش کے شکار رہتے ہیں ۔ یہ تذبذب اور کشمکش زندگی کے عام سے معاملات سے لے کر گہرے مذہبی اور فلسفیانہ افکار تک چھائی ہوئی ہوتی ہے ۔ ’’ ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر‘‘ اس کشمکش کی سب سے واضح مثال ہے ۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ کو کشمکش کی بے شمار صورتوں کو بہت قریب سے دیکھنے ، محسوس کرنے اور جاننے کا موقع ملے گا ۔

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ایسا نہ ہو جائے

حفیظ جالندھری

عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں

یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

علامہ اقبال

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم

نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

شہپر رسول

ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر

کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

مرزا غالب

سوال کرتی کئی آنکھیں منتظر ہیں یہاں

جواب آج بھی ہم سوچ کر نہیں آئے

آشفتہ چنگیزی

ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم

آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے

قمر جلالوی

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

تشریح

اپنے مضمون کے اعتبار سے یہ کافی دلچسپ شعر ہے۔ سودا کے معنی جنون یا پاگل پن۔ چونکہ عشق کا آغاز دل سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا جنون ہوتا ہے۔ عشق میں جنون کی حالت وہ ہوتی ہے جب عاشق کا اپنے دماغ پر قابو نہیں ہوتا ہے۔ اس شعر میں فراقؔ نے انسانی نفسیات کےایک نازک پہلو کو مضمون بنایا ہے۔ کہتے ہیں کہ اگرچہ میں نے ترکِ محبت کی ہے۔ یعنی محبت سے کنارہ کیا ہے۔ اور میرے دماغ میں اب جنون کی کیفیت بھی نہیں۔ اور میرے دل میں اب محبوب کی تمنا بھی نہیں۔ مگر عشق کب پلٹ کر آجائے اس بات کا کوئی بھروسا نہیں۔ آدمی اپنی طرف سے یہی کرسکتا ہے کہ عقل کو خلل سے اور دل کو تمنا سے دور رکھے مگر عشق کا کوئی بھروسا نہیں کہ کب پھر بے قابو کر دے۔

شفق سوپوری

فراق گورکھپوری

یہ کس عذاب میں چھوڑا ہے تو نے اس دل کو

سکون یاد میں تیری نہ بھولنے میں قرار

شہرت بخاری

شوق کہتا ہے پہنچ جاؤں میں اب کعبہ میں جلد

راہ میں بت خانہ پڑتا ہے الٰہی کیا کروں

امیر مینائی

ہے عجب سی کشمکش دل میں اثرؔ

کس کو بھولیں کس کو رکھیں یاد ہم

اثر اکبرآبادی

یہ سوچتے ہی رہے اور بہار ختم ہوئی

کہاں چمن میں نشیمن بنے کہاں نہ بنے

اثر لکھنوی

ادھر سے تقاضا ادھر سے تغافل

عجب کھینچا تانی میں پیغام بر ہے

نامعلوم

پھڑکوں تو سر پھٹے ہے نہ پھڑکوں تو جی گھٹے

تنگ اس قدر دیا مجھے صیاد نے قفس

شیخ ظہور الدین حاتم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے