کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب تھے
ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب تھے
-
موضوعات : انقلاباور 1 مزید
میری رسوائی کے اسباب ہیں میرے اندر
آدمی ہوں سو بہت خواب ہیں میرے اندر
اب دیکھتا ہوں میں تو وہ اسباب ہی نہیں
لگتا ہے راستے میں کہیں کھل گیا بدن
-
موضوع : بدن
اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں
دوستو آؤ کہ کچھ خواب دکھاتے ہیں تمہیں
-
موضوع : خواب
اس کے اسباب سے نکلا ہے پریشاں کاغذ
بات اتنی تھی مگر خوب اچھالی ہم نے
ٹکڑے کئی اک دل کے میں آپس میں سئے ہیں
پھر صبح تلک رونے کے اسباب کئے ہیں
یہی بہت تھے مجھے نان و آب و شمع و گل
سفر نژاد تھا اسباب مختصر رکھا
کبھی تو منبر و محراب تک بھی آئے گا
یہ قہر قہر کے اسباب تک بھی آئے گا