بھروسہ پر اشعار
بھروسے کے ٹوٹنے اور
بکھرنے کا دکھ اور اس کی پائیداری سے حاصل ہونے والا اعتماد دونوں ہی تجربے بہت اہم انسانی تجربے ہیں ۔ انسان اپنی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ وہ سماجی زندگی میں رشتوں کے ایک جال میں پھنسا ہوتا ہے ، جہاں وہ کسی پر بھروسہ کرتا بھی ہے اور اس پر بھروسہ کیا بھی جاتا ہے ۔ شاعروں نے زندگی کی بہت چھوٹی چھوٹی حقیقتوں کو اپنے تخلیقی اظہار کا موضوع بنایا ہے ، بھروسے اور اس کی مختلف شکلوں کو مشتمل یہ شاعری ہمیں زندگی کا ایک نیا شعور عطا کرتی ہے ۔
دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا
نہ کوئی وعدہ نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید
مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا
-
موضوعات : امیداور 2 مزید
مسافروں سے محبت کی بات کر لیکن
مسافروں کی محبت کا اعتبار نہ کر
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
-
موضوعات : انتظاراور 1 مزید
آپ کا اعتبار کون کرے
روز کا انتظار کون کرے
-
موضوع : انتظار
مری زبان کے موسم بدلتے رہتے ہیں
میں آدمی ہوں مرا اعتبار مت کرنا
-
موضوع : انسان
عشق کو ایک عمر چاہئے اور
عمر کا کوئی اعتبار نہیں
ثبوت ہے یہ محبت کی سادہ لوحی کا
جب اس نے وعدہ کیا ہم نے اعتبار کیا
-
موضوع : وعدہ
مجھ سے بگڑ گئے تو رقیبوں کی بن گئی
غیروں میں بٹ رہا ہے مرا اعتبار آج
دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا
تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا
ہر چند اعتبار میں دھوکے بھی ہیں مگر
یہ تو نہیں کسی پہ بھروسا کیا نہ جائے
-
موضوع : فریب
مری طرف سے تو ٹوٹا نہیں کوئی رشتہ
کسی نے توڑ دیا اعتبار ٹوٹ گیا
میں اس کے وعدے کا اب بھی یقین کرتا ہوں
ہزار بار جسے آزما لیا میں نے
جھوٹ پر اس کے بھروسا کر لیا
دھوپ اتنی تھی کہ سایا کر لیا
بہت قریب رہی ہے یہ زندگی ہم سے
بہت عزیز سہی اعتبار کچھ بھی نہیں
-
موضوع : زندگی
یوں نہ قاتل کو جب یقیں آیا
ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ
-
موضوع : قاتل
کسی پہ کرنا نہیں اعتبار میری طرح
لٹا کے بیٹھوگے صبر و قرار میری طرح
ہم آج راہ تمنا میں جی کو ہار آئے
نہ درد و غم کا بھروسا رہا نہ دنیا کا
-
موضوعات : تمنااور 3 مزید
وہ کہتے ہیں میں زندگانی ہوں تیری
یہ سچ ہے تو ان کا بھروسا نہیں ہے
درد دل کیا بیاں کروں رشکیؔ
اس کو کب اعتبار آتا ہے
یہ اور بات کہ اقرار کر سکیں نہ کبھی
مری وفا کا مگر ان کو اعتبار تو ہے
-
موضوع : وفا
جب نہیں کچھ اعتبار زندگی
اس جہاں کا شاد کیا ناشاد کیا
-
موضوع : زندگی
مجھے ہے اعتبار وعدہ لیکن
تمہیں خود اعتبار آئے نہ آئے
جان تجھ پر کچھ اعتماد نہیں
زندگانی کا کیا بھروسا ہے
اس کی خواہش پہ تم کو بھروسا بھی ہے اس کے ہونے نہ ہونے کا جھگڑا بھی ہے
لطف آیا تمہیں گمرہی نے کہا گمرہی کے لئے ایک تازہ غزل