سب اکیلے ہیں
میں نے یہ درد بھی تمہارے لیے سہہ لیا ہے۔۔۔!
ادھر۔۔۔ میری طرف نظریں اٹھاکر دیکھو۔۔۔!
(لیکن اس نے نہیں دیکھا)
دیکھو نا میری آنکھوں میں کہ اگر یہ جھوٹی ہوں گی تو ان میں وہ صاف شفاف روشنی تمہیں نہیں ملےگی کہ جس کا جلوہ کبھی کسی پہاڑ پر آگ کی تلاش میں بھٹکتے ہوئے آج سے ہزاروں سال پہلے کسی فرشتے نے دیکھا تھا۔
(لیکن اس نے میری آنکھوں میں نہیں دیکھا۔)
میری بات سنو کہ ہر لمحہ بہت قیمتی ہے اور ہر گزرا ہوا پل ایک جان لیوا حساب کتاب ہے کہ اگر یاد میں ٹھہر جائے، رک جائے، کھو جانے کا نام نہ لے تو دبی ہوئی چنگاری کے مانند، اٹکے ہوئے کانٹے کی طرح یکبارگی ایسا جلاتا ہے، ایسا کھٹکتا ہے کہ مرنے بھی نہیں دیتا اور جینے بھی نہیں دیتا۔
(لیکن تب بھی وہ یونہی گم سم رہی۔)
اور وہ شام بھی گزر گئی۔۔۔ اداس خالی خالی اجڑی اجڑی، بےمصرف شام۔ لڑکیاں کتنی شامیں سمیٹ کر لے جاتی ہیں اور بدلے میں کچھ نہیں ملتا۔
مرد کے لیے اس سے دلچسپ کھیل اور کیا ہوگا۔ اسے اتنا تو معلوم ہی ہوتا ہے کہ دوسری شام بھی آئےگی۔
(اور دوسری شام آئی)
وہی میز۔ وہی میز پر لٹکتا ہوا روشنی کا مدھم سا دائرہ۔ وہی ہلکی ہلکی موسیقی اور پھر وہی سوچے ہوئے تراشے ہوئے گرم گرم الفاظ۔
وہ جو میں تم سے بیان کر رہا ہوں کیا تم پر کبھی گزری ہے؟
میرا مطلب ہے کہ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ تم نے اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں کبھی کوئی میٹھا میٹھا درد سہا ہو، کوئی الزام اپنے سر لیا ہو، اپنی ایمان دار آنکھوں میں جھانکنے کی کسی سے بھیک مانگی ہو، اپنی بات کسی کو سنانا چاہی ہو اور۔۔۔ اور۔۔۔
(اور وہ شام بھی گزر گئی۔)
مرد کو اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ دوسری شام بھی آئےگی۔
(اور دوسری شام آئی)
تب تک اس کے آنسو آنکھوں سے بہہ کر گالوں سے ہوتے ہوئے ہونٹوں کے کونوں کو گیلا کر چکے تھے۔ گہری لپ اسٹک والے ہونٹ بار بار کپکپا رہے تھے۔ گلاس میں بلبلے اٹھاتا ہوا کوک یونہی ایک طرف رکھا تھا۔
پچھلی کچھ شاموں سے میں اس لڑکی کو دفتر سے اٹھاکر لے آتا تھا۔
یہ بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی کہ لڑکی کوئی ایسی شے نہیں ہوتی جس کو برساتی یا چھڑی کے مانند ایک جگہ سے اٹھاکر دوسری جگہ لے جایا جا سکے۔ بعض مرد لڑکیوں کے معاملے میں بیانات دیتے وقت ایسا محسوس کرتے ہیں کہ وہ دنیا کے واحد مرد ہیں جنھیں لڑکیوں کے بارے میں کچھ معلوم ہے اور جو کچھ انھیں معلوم ہے بس وہی سچ ہے۔
لیکن وہ شام، رخساروں پر پھسلتے ہوئے گرم گرم آنسوؤں والی وہ شام، جب وہ میرے سامنے تھی، دبلی پتلی، سانولی سلونی سی لمبے قد کی یہ لڑکی ایک دن اچانک بس یونہی اتنی اچھی لگی تھی کہ جی میں آیا تھا کہ اسے چھوکر اور محسوس کر کے دیکھوں کہ من کو بھا جانے والی ہر لڑکی ایک کائنات ہے اور یہ ایک ان دیکھی، خوبصورت اور دلکش وادی ہے جس کی خوشبوئیں اور حرارتیں قریب آنے کی دعوت دیتی ہیں اور اسے explore کرنے کے لئے چیلنج کرتی ہیں۔
لیکن شامیں ایک جیسی ہوتی ہیں، سارے الفاظ دنیا کے سارے مرد دنیا کی ساری لڑکیوں کے لئے استعمال کر چکے ہیں۔ کچھ بھی تو نیا نہیں رہ گیا۔ لیکن وہ لڑکی جو سامنے بیٹھی تھی پچھلی کچھ شاموں سے میرے ساتھ تھی۔ ایسی لڑکی دنیا میں کبھی پیدا نہ ہوئی تھی اور ایسی شام دنیا میں کبھی نہ آئی تھی جو اس شام تھی، میرے سارے لفظ بھی نئے تھے۔ ان کہے، اچھوتے، جو صرف اس لڑکی کے لیے پیدا ہوئے تھے اور اس لڑکی کے ساتھ ختم ہو جانے والے تھے۔
میں نے دیکھا وہ جیسے اپنے آپ سے لڑ رہی تھی۔ اتنی بہادری سے کہ اس کے اندر جو کچھ ہورہا تھا اس کاباہر پتہ نہیں چل سکتا تھا۔ ا س کی جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید یوں پتھر کی مورت بن کر بس آنسوؤں کے تار بہانے تک موقوف نہ رہتا۔ شاید کوئی دوسری لڑکی ہوتی تو۔۔۔
یک بارگی وہ روتے میں مسکرائی،’’بس اسی لیے مجھے یہاں لاتے ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے میری سگریٹ کی ڈبیا اپنی طرف کھینچی، ایک سگریٹ نکالا،ہونٹوں سے لگاکر جلایا اور ایک گہرا سا دھویں کا مرغولا میرے اور اس کے درمیان ہوا میں تیرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولی،’’میں تمھیں اچھی لگتی ہوں۔۔؟‘‘
’’میرا خیال ہے یہ ایک غیر ضروری سوال ہے۔‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ وہ بولی، ’’غیر ضروری کیوں؟‘‘
’’اس لیے کہ تم مجھے ادھر کافی دنوں سے اچھی لگ رہی ہو اور یہ بات تمھیں بھی معلوم ہے۔‘‘
’’مجھے کیسے معلوم ہے؟‘‘ وہ قدرے حیرت سے بولی۔
’’اس لیے کہ جب کسی لڑکے کو کوئی لڑکی اچھی لگنے لگتی ہے تو لڑکے کے نہ بتانے پر بھی لڑکی سے یہ بات چھپی نہیں رہتی ہے۔‘‘
وہ میرے جواب پر کچھ نہیں بولی۔ اس لیے کہ بولنا بے کار تھا۔ اس لیے کہ اب تک جو کچھ وہ بولی تھی بس عادتاً بولی تھی کہ لفظ سارے کے سارے پرانے ہو چکے ہیں۔ ان کی خوشبو، ان کی گرمی اور تازگی نہ جانے کہاں کھو چکی ہے۔ ایسی صورت میں باہر کچھ بھی ہو کیسا بھی ہو، آدمی واپس اپنے اندر چلا جاتا ہے۔ جب لفظ بے کار ہو جاتے ہیں تو جذبے سرد پڑ جاتے ہیں اور جب جذبے سرد پڑ جائیں تو ہر چیز اپنی معنویت کھو دیتی ہے۔ نہ کچھ آشکار ہوتا ہے اور نہ کچھ آشکار کیا جا سکتا ہے اور جب کچھ منکشف نہیں ہوتا تو جوانی ہو یا بڑھاپا، سردی ہو یا گرمی، شہر ہو یا گاؤں کچھ اچھا نہیں لگتا۔
وہ باربار اپنی انگلیوں میں پھنسی سگریٹ سے کھیل رہی تھی۔ جلتی ہوئی سگریٹ بڑے کام کی چیز ہے۔ شاید سگریٹ کی موجودگی میں اسے استعمال کرنے والے کو ہر دم یہ احساس رہتا ہے جیسے وہ تنہا نہیں ہے۔ اس کے ساتھ کوئی اور بھی کسی کام میں مصروف ہے۔ دھیرے دھیرے جلنے کے کام میں آہستہ آہستہ کم ہونے اور ختم ہونے کے عمل میں اور کتنی طمانیت ہوتی ہے اس احساس سے۔۔۔! وہ بھی مطمئن سی نظر آ رہی تھی جیسے میرے اور اس کے علاوہ وہاں کوئی تیسرا بھی موجود ہو اور جس کی مدد لے کر وہ جب چاہے مجھے کچھ دیر کے لیے نظر انداز کر سکتی ہے اور زندگی میں کبھی کبھی دوسرے کو نظرا نداز کر دینے کی فطری ضرورت ہر ایک کو پڑتی ہے ورنہ شاید زندگی اور بھی مشکل ہو جائے۔
’’تم نے کہا، جب کسی لڑکے کو کوئی لڑکی اچھی لگنے لگے۔۔۔ تو کیا تم اب بھی اپنے کو لڑکا سمجھتے ہو؟‘‘
’’ہاں اتنی عمر تو ہے ابھی میری کہ کسی لڑکی کے دل میں ہیجان پیدا کر سکوں۔‘‘یہ کہہ کر ا یک تیکھی نظر سے میں نے اسے دیکھا۔
’’میرے بارے میں تم کیا جانتے ہو؟‘‘
’’یہی کہ تم مجھے اچھی لگنے والی ایک اسمارٹ سی سانولی سلونی لڑکی ہو جو دفتر میں ہر وقت چہکا کرتی ہو۔‘‘
’’اور کیا جانتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’اور تو کچھ نہیں۔‘‘
’’کیا تمھیں اپنے بارے میں یہ غلط فہمی بھی ہے کہ کوئی بھی لڑکی جس کو تم چاہو تمہاری طرف کھنچ سکتی ہے اور تم اس کے اندر ہیجان پیدا کر سکتے ہو؟‘‘
’’غلط فہمی کی بات تو میں نہیں جانتا، بہرحال میں مرد ہوں۔‘‘
’’پھر اس کے بعد۔۔۔؟‘‘ ا س نے مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’اس کے بعد کیا۔۔۔؟‘‘
’’میرا مطلب ہے اس کے بعد تم کیا کر سکتے ہو؟‘‘
اس سوال پر میں اسے دلچسپی سے دیکھنے لگا۔ وہ ایک دم زور سے ہنسی اور بولی، ’’اس کے بعد تم کتے کی طرح لڑکی کے آگے پیچھے دم ہلانے لگتے ہوگے اور بہرحال فیصلہ اس لڑکی کے ہاتھ میں ہی ہوتا ہوگا کہ وہ تمھیں دھتکار دے یا تمہاری کنگال جھولی میں ان لمحوں کی تھوڑی سی بھیک ڈال دے جو لمحے دبی ہوئی چنگاری کے مانند اور اٹکے ہوئے کانٹے کی طرح ایسا جلاتے ہیں اور ایسا کھٹکتے ہیں کہ مرنے بھی نہیں دیتےاور جینے بھی نہیں دیتے۔‘‘ یہ کہہ کرا س نے کوک کا دیر سے رکھا ہوا گلاس اٹھاکر ہونٹوں سے لگایا اور ایک سانس میں پی گئی۔
’’تم بہت انٹریسٹنگ ہو،بہت دلچسپ۔‘‘ میں نے کرسی پر بےچینی سے پہلو بدل کر بات آگے بڑھانا چاہی۔ ۔۔میں جانتا تھا کہ وہ لمحات بڑے قیمتی تھے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے جب لڑکیاں اپنے ذہن پر زور دے کر اپنے کو کھولنے کے مشغلے میں دلچسپی لیتی ہیں اور جب وہ اس منزل پر آ گئی تھی تو میں اس لمحے کو کھونا نہیں چاہ رہا تھا۔
’’جو کچھ تم کہہ رہی ہو کیا یہ تمہارا تجربہ ہے یا مشاہدہ ہے یا پھر محض کتابوں میں پڑھی ہوئی باتیں ہیں؟‘‘
’’ایک بات بتاؤگے؟‘‘ اس نے میرے سوال کو نظرانداز کر کے خود سوال جڑ دیا۔
’’بولو۔۔۔‘‘ میں نے اسے موقع دیا۔
’’تم مجھے دفتر میں دیکھتے تھے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’ہنستے، مسکراتے، قہقہے لگاتے، لوگوں کا مذاق اڑاتے۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’روز روز بھڑکیلے لباس پہن کر آنا، رخساروں، ہونٹوں، بھوؤں اور آنکھوں کو جاذب نظر بناکر جسم کے دلنواز خطوط سے لبھانا، کچھ چھپانا، کچھ دکھانا، سیرابی اور تشنگی کی ایسی دھوپ چھاؤں کا کھیل کھیلنا جو مرنے بھی نہ دے اور جینے بھی نہ دے۔ یہاں تک کہ تمہارا میرے لیے یوں پاگل ہو جانا کہ میرے سوا تمھیں کچھ دکھائی نہ دے۔ کب سے تم میرے آگے پیچھے گھوم رہے ہو، کب سے تم چپکے چپکے بے آواز بھیک مانگ رہے ہو، یہاں اس رسٹوران میں لے کر آتے ہو، کبھی بھی تمہارا سر میرے قدموں میں ہو سکتا ہے، اب تم ہی بتاؤ، ہیجان کہاں پیدا ہوا۔ کس کے دل میں، میرے یا تمہارے اور کس نے پیدا کیا؟ میں نے یا تم نے؟‘‘
’’تم نے ۔۔۔‘‘ بڑی متانت سے میں نے اس کی طرف یوں دیکھا کہ وہ میرے احساس شکست کو آسانی سے پہچان لے۔ اپنی کمتری اور بےبسی کا اظہار جس میں مرد کا وہ بنیادی گھٹیاپن شامل تھا جس کے سہارے وہ اکثر اس کھیل میں انجام کار ایک فاتح کی طرح ابھرتا ہے۔یہی ہوا بھی۔ وہ کچھ نرم پڑ گئی۔ مرد کو جھکتے دیکھ کر اسے کچھ اچھا لگا تھا، آرام سا ملاتھا۔ اس آرام کا بھی ایک مزہ ہے۔ یہ مزہ صرف مرد ہی کسی لڑکی کو دے سکتا ہے۔ اس مزے میں ایک نشہ ہوتا ہے اور یہ نشہ ہر لڑکی کو اچھا لگتا ہے۔ مگر اس نشے کی بھی ایک مقدار مقرر ہے جسے عام طور پر مرد نہیں جانتے۔ یہ مقدار سب کے لئے ایک جیسی نہیں ہوتی۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اس لڑکی کو مدہوش ہونے کے لیے کتنی مقدار کی ضرورت تھی۔
بس اسے ایک ہلکی سی لہر آئی اور وہ سنبھل گئی۔ سنبھلی تو اداس ہو گئی۔
’’میری عمر ۲۳ سال ہے۔‘‘ اس نے بات شروع کی۔ ’’پچھلے تین سالوں میں کئی لڑکوں کے دلوں میں ہیجان پیدا کر چکی ہوں میں۔ ایک لڑکا مجھے بھی مار گیا۔ تمھیں اس کی تصویر دکھاؤں گی۔ بہت خوبصورت۔ گورا چٹا۔ اس نے بڑی تیزی سے محبت کی مجھ سے۔ جھیلوں کے کنارے، سائے دار کنجوں میں، سنیما گھروں، ریسٹورانوں اور پارکوں میں ہم ملے۔ میں گلے گلے اتر گئی اس کی محبت میں۔ جانتے ہو پھر کیا ہوا؟ اس کی محبت کا پودا بڑا ہوا، اس میں شاخیں آئیں، برگ و بارآئے اور پھر وہ درخت اپنی موت مر گیا۔ ہر درخت پھول پتیاں دے کر سوکھ جاتا ہے۔ اس نے میرے ہونٹ چومے، اس طرح کہ میں قطرہ قطرہ بہہ گئی۔ اس طرح میرا انگ انگ چوم ڈالا کہ میرا داغ ہی نہیں میری کوکھ بھی سوچنے اور محسوس کرنے کا کام کرنے لگی ہے اور اس دن مجھے معلوم ہوا کہ عورت اپنی کوکھ سے بھی سوچتی ہے۔ میری بات یاد رکھنا۔ گلے گلے پیار کے ساگرمیں اتر جانے کے بعد بھی فیصلہ عورت ہی کرتی ہے، کب جب وہ کوکھ سے سوچنے لگے۔۔۔ اور پھر میں نے ایک دن فیصلہ کر لیا۔۔۔‘‘
اس دن مجھے وہ ساری لڑکیاں ایک ایک کر کے یاد آ گئیں جواپنی اپنی جگہ ایک کائنات تھیں اور مجھے ان کائناتوں میں کچھ دیر جینے اور سانس لینے کا موقع مل چکا تھا۔ ان سب سے مجھے کیا ملا اور کتنا ملا؟ اور تب مجھے ایک بار پھر اس غلط فہمی کا احساس ہوا تھا۔ اس خود فریبی کا احساس کہ جس میں مجھ جیسے مرد مبتلا رہتے ہیں۔ کیا میں ان میں سے کسی بھی ایک لڑکی سے کچھ پا سکا تھا۔ آخر میرے حق میں ان کے کیے ہوئے فیصلے کیسے تھے؟ یعنی جب ان کے دماغ کے ساتھ ان کی کوکھ بھی سوچنے لگی تو پھر میری انجام کیا ہوا۔۔۔؟ عورت ایسا کیوں کرتی ہے؟ وہ صرف دماغ سے کیوں نہیں سوچتی؟ پیٹ سے کیوں سوچنے لگتی ہے؟ جب مرد کو محبت کے کھیل کا اختیار ہے تو پھر اس کھیل میں فتح یا شکست کا فیصلہ بھی وہ خود کیوں نہیں کر سکتا؟
’’سنو‘‘ اس نے مجھے مخاطب کیا۔ اب وہ دوسری سگریٹ جلا چکی تھی۔ ’’تم نے مجھ سے سوال نہیں کیا؟‘‘
’’کیسا سوال؟‘‘
’’یہی کہ میں نے کیا فیصلہ کیا تھا؟ اور اس محبت کے کھیل کا انجام کیا ہوا؟‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں اس انجام کو بتانے کی۔‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر جواب دیا۔
’’کیا تم اس انجام سے واقف ہو؟ یا تمہیں دلچسپی ہی نہیں اسے جاننے کی۔‘‘
’’میں انجام سے واقف ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ ’’تم نے اس کے سامنے شادی کی بات رکھی ہوگی اور اس نے اس پر کوئی توجہ نہ دی ہوگی، آنا کانی کی ہوگی، وقت مانگا ہوگا اس نے ایسا کیوں کیا ہوگا؟ اس کی کئی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ ممکن ہے اس کی صرف ایک ہی وجہ رہی ہو، ایک ہی وجہ ہوتی ہو کہ تم اپنی کوکھ سے مجبور ہو۔ اس میں اٹھنے والے طوفان تمہارے بادبانوں کے رخ موڑ دیتے ہوں اور یہ کام گیلیلیو کے بس کا نہیں تھا۔ اس پر جو کچھ منکشف ہوا تھا وہ حتمی تھا، کیونکہ کوکھ اور دماغ میں یہی فرق ہے۔ تم نے آخرکار اس لڑکے سے بے رخی برتنا شروع کر دی ہوگی اور پھر ایک دن اسے سختی سے منع کر دیا ہوگا کہ وہ تم سے نہ ملے، لیکن کچھ دن وہ پھر بھی تمہارے ارد گرد چکر کاٹتا رہا ہوگا۔ مگر تم اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہی ہوگی۔ یہاں تک کہ وہ آہستہ آہستہ تمھیں بھلانے میں کامیاب ہو گیا ہوگا۔ اس طرح تم جیت گئیں اور وہ ہار گیا ہوگا یہی نا؟‘‘
’’ہاں وہ ہار گیا۔۔۔‘‘ وہ بولی، ’’لیکن یہ الگ بات ہے کہ میں آج بھی اس کی محبت میں پھنک رہی ہوں۔ آج اس وقت، ابھی وہ میرے سامنے آ جائے تو اسے اپنی بانہوں میں لے کر اتنے پیار کروں، اتنے پیار کروں۔۔۔ بٹ آئی ہیٹ ہم۔مجھے اس سے نفرت ہے۔‘‘ اس کے آگے وہ اپنے اوپر قابو نہ پا سکی، میز پر دونوں کہنیاں رکھے اور دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپائے وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی۔
اسے اس طرح روتے دیکھ کر میرا سارا وجود مجھ سے نکل کر نہ جانے کہاں غائب ہو گیا اورمجھے لگا کہ اس لڑکی کے سامنے صرف ایک مرد بیٹھا تھا۔ ایک تشنہ کام اوربہت اکیلا سا مرد جو سوچ رہا تھا کہ وہ لڑکیاں جن سے وہ پچھلے برسوں میں محبت کا کھیل کھیل چکا تھا ان میں سے کوئی ایک لڑکی کسی جگہ اسی طرح دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپائے ہوئے اس کے لیے پھوٹ پھوٹ کر رو رہی ہوگی اور اس کے سامنے بھی بیٹھا ہوا کوئی مرد تشنہ کام اور بےحد اکیلا ہو چکا ہوگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.