یہ پری چہرہ لوگ
ہر انسان اپنے مزاج اور کردار سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ سخت مزاج بیگم بلقیس طراب علی ایک دن مالی سے بغیچے کی صفائی کرا رہی تھیں کہ وہ مہترانی اور اس کی بیٹی کی بات چیت سن لیتی ہیں۔ بات چیت میں ماں بیٹی بیگموں کے اصل نام نہ لے کر انھیں مختلف ناموں سے بلاتی ہیں۔ یہ سن کر بلقیس بانو ان دونوں کو اپنے پاس بلاتی ہیں۔ وہ ان ناموں کے اصلی نام پوچھتی ہیں اور جاننا چاہتی ہیں کہ انھوں نے اس کا نام کیا رکھا ہے؟ مہترانی ان کے سامنے تو منع کر دیتی ہے لیکن اس نے بیگم بلقیس کا جو نام رکھا ہوتا ہے،وہ اپنے شوپر کے سامنے لے دیتی ہے۔
غلام عباس
اندھی محبت
کسی حادثے میں نابینا ہوئی ایک لڑکی کی داستان ہے۔ جو ڈاکٹر اس کا علاج کر رہا ہے، لڑکی کو اس ڈاکٹر سے محبت ہو جاتی ہے اور بالآخر ان کی شادی ہو جاتی ہے۔ لڑکی کے آنکھوں کے آپریشن کے بعد جب وہ اپنے شوہر کو دیکھتی ہے تو اسے دیکھ کر اتنی حیران ہوتی ہے کہ وہ دل ہی دل میں دعا کرتی ہے کہ کاش اسکی آنکھیں ٹھیک نہیں ہوئی ہوتیں۔ لڑکی کی یہ حالات دیکھ کر اس کا ڈاکٹر شوہر اسے اپنے معاون کے حوالے کر اس کی زندگی سے چلا جاتا ہے۔
حجاب امتیاز علی
بہروپیا
ہر پل شکل بدلتے رہنے والے ایک بہروپیے کی کہانی جس میں اس کی اصل شکل کھو کر رہ گئی ہے۔ وہ ہفتے میں ایک دو بار محلے میں آیا کرتا تھا۔ دیکھنے میں خوبصورت اور ہنسوڑ مزاج کا شخص تھا۔ ایک چھوٹے لڑکے نے ایک دن اسے دیکھا تو اس سے بہت متاثر ہوا اور وہ اپنے دوست کو ساتھ لے کر اس کا پیچھا کرتا ہوا اس کی اصل شکل جاننے کے لیے نکل پڑا۔
غلام عباس
ازدواج محبت
یہ ایک ایسے فرد کی کی کہانی ہے، جو کبھی حیدرآباد کی ریاست میں ڈاکٹر ہوا کرتا تھا۔ وہاں اسے لیڈیز ڈسپینسری میں کام کرنے والی ایک لیڈی ڈاکٹر سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر اس شادی سے ناراض ہوکر ریاست کے حکام اسے 48 گھنٹے میں ریاست چھوڑنے کا حکم سنا دیتے ہیں۔ اس حکم سے ان کی زندگی پوری طرح بدل جاتی ہے۔
سجاد حیدر یلدرم
دس منٹ بارش میں
بارش میں بھیگتی ایک ایسی غریب عورت کی داستان ہے جس کا شوہر اسے چھوڑ کر چلا گیا ہے اور اس کی گھوڑی بھی گم ہو گئی ہے۔ اس کا ایک کم عقل بیٹا ہے جو جھونپڑی میں پڑا رہتا ہے۔ تیز بارش کی وجہ سے جھونپڑی کی چھت اڑ گئی ہے جسے وہ عورت اکیلے ٹھیک کر رہی ہے اور دور کھڑے دو مرد آپس میں باتیں کر رہے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ وہ کب مدد کے لیے انھیں بلاتی ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
پرواز کے بعد
یہ دلی احساسات اور خواہشات کو بیان کرتی ہوئی کہانی ہے۔ اس میں حادثات کم اور واقعات زیادہ ہیں۔ دو لڑکیاں جو ساتھ پڑھتی ہیں ان میں سے ایک کو کسی سے محبت ہو جاتی ہے مگر وہ شخص اسے مل کر بھی مل نہیں پاتا اور بچھڑنے کے بعد بھی جدا نہیں ہوتا۔ کہا جائے تو یہ وصال و ہجر کی کہانی ہے، جسے ایک بار ضرور پڑھنا چاہیئے۔
قرۃالعین حیدر
چھوکری کی لوٹ
کہانی میں شادی جیسے روایتی سنسکار کو ایک دوسری ہی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ بیٹیوں کے جوان ہونے پر مائیں اپنی چھوکریوں کی لوٹ مچاتی ہیں جس سے ان کا رشتہ پکا ہو جاتا ہے۔ پرسادی کی بہن کی جب لوٹ مچی تو اسے بہت غصہ آیا، کیونکہ رتنا خوب روئی تھی۔ بعد میں اس نے دیکھا کہ رتنا اپنے کالے کلوٹے پتی ساتھ خوش ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ رتنا کی شادی زبردستی کی شادی نہیں تھی بلکہ وہ تو خود سے اپنا لوٹ مچوانا چاہتی تھی۔
راجندر سنگھ بیدی
میٹھا معشوق
یہ اس وقت کی کہانی ہے جب ریل ایجاد نہیں، ہوئی تھی لوگ پیدل،اونٹ یا پھر گھوڑوں پر سفر کیا کرتے تھے۔ لکھنئو شہر میں ایک شخص پر مقدمہ چل رہا تھا اور وہ شخص شہر سے کافی دور رہتا تھا۔ مقدمے کی تاریخ پر حاضر ہونے کے لیے وہ اپنے قافلے کے ساتھ شہر کے لیے روانہ ہو گیا، ساتھ میں نذرانے کے طور پر میٹھائی کا ٹوکرا بھی تھا۔ پورے راستے اس میٹھے معشوق کی وجہ سے انھیں کچھ ایسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ آرام سے سو تک نہیں سکے۔
چودھری محمد علی ردولوی
منزل
’’یہ ایسے بچے کی کہانی ہے جسے لگتا ہے کہ اس کے ماں باپ اس سے پیار نہیں کرتے۔ اس نے اپنے ماں باپ کا پیار حاصل کرنے کے لیے ان کی خدمتیں کی تھی۔ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بنٹایا تھا۔ کتا پالا تھا۔ آڑی ترچھی لکیریں کھینچی تھیں۔ بھائیوں سے دوستی کی، بلی پالی۔ مگر کوئی بھی اپنا نہ ہو سکا۔ مٹی کے کھلونوں میں جی لگانا چاہا وہ بھی دور ہو گئے۔ سب طرف سے مایوس ہوکر اس نے مرنے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر تبھی اس کی زندگی میں ایک لڑکی آئی اور سب کچھ بدل گیا۔‘‘
واجدہ تبسم
ہڈیاں اور پھول
حاصل کی ناقدری اور لاحاصل کے لئے گلہ شکوہ کی انسانی فطرت کو اس کہانی میں اجاگر کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں میاں بیوی کے درمیان شک و شبہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تلخی کا بیان ہے۔ ملم ایک چڑچڑا موچی ہے، گوری اس کی خوبصورت بیوی ہے، ملم کے ظلم و زیادتی سے عاجز آ کر گوری اپنے مائکے چلی جاتی ہے تو ملم کو اپنی زیادتیوں کا احساس ہوتا ہے اور وہ بے خودی کے عالم میں عجیب عجیب حرکتیں کرتا ہے لیکن جب وہی گوری واپس آتی ہے تو اسیشن پر بھیڑ کی وجہ سے ایک اجنبی سے ٹکرا جاتی ہے اور ملم غصے سے ہکلاتے ہوئے کہتا ہے, یہ نئے ڈھنگ سیکھ آئی ہو۔۔۔ پھر آ گئیں میری جان کو دکھ دینے۔
راجندر سنگھ بیدی
صحبت نا جنس
’’افسانہ غیر برابری کی شادی کی داستان ہے، جس میں ایک لڑکی کی شادی ایک ایسے شخص سے ہو جاتی ہے، جس کے عادات و اطوار، آداب اور پسند ناپسند اس سے بالکل مختلف ہیں۔ اپنے شوہر کی ان حرکتوں سے تنگ آکر وہ اپنی ایک سہیلی کو خط لکھتی ہے اور اس سے اس پریشانی سے نجات پانے کا طریقہ پوچھتی ہے۔‘‘
سجاد حیدر یلدرم
وہ کون تھی؟
ایک بہت ہی مذہبی شخص اور اس کے افراد خانہ کی کہانی ہے۔ اس شخص کے دو گھر ہیں، ایک میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتا اور دوسرا مکان خالی پڑا ہوا ہے۔ اپنے خالی مکان کو کسی شریف اور نیک شخص کو کرائے پر دینا چاہتا ہے۔ پھر ایک دن اس گھر میں ایک عورت آکر رہنے لگتی ہے، وہ شخص اس کے پاس جانے لگتا ہے۔ اس کے بارے میں جب اس کی بیوی اور گھر کے دیگر افراد کو پتہ چلتا ہے تو کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے اور وہ مذہبی اور دیندار شخص اپنے گھر والوں کی نگاہوں میں قابل نفرین بن جاتا ہے۔
مرزا ادیب
نا مراد
صفدر ایک مذہبی گھرانے کا روشن خیال فرد ہے، رابعہ اس کی منگیتر ہے جس کا اچانک انتقال ہو جاتا ہے۔ رابعہ کی ماں صفدر کو آخری دیدار کے لئے بلوا بھیجتی ہے۔۔۔ صفدر راستے بھر فرسودہ خیالات کے نقصانات کے بارے میں غور کرتا رہتا ہے۔ اسے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ رشتہ طے کرتے وقت نہ اس سے کوئی مشورہ کیا گیا نہ رابعہ کو ہونے والا شوہر دکھایا گیا تو پھر اس تکلف کی کیا ضرورت۔ وہ رابعہ کے گھر پہنچتا ہے تو رابعہ کی ماں ہائے واویلا کرتی ہے اور بار بار رابعہ کو نامراد کہتی رہتی ہے۔ رابعہ کا چہرہ دیکھنے کے بعد صفدر فیصلہ نہیں کر پاتا ہے کہ رابعہ نا مراد ہے یا صفدر یا رابعہ کی ماں جو دونوں سے واقف تھی۔
راجندر سنگھ بیدی
ماڈل ٹاؤن
حسد کی آگ میں جلتے ایک نوجوان کی کہانی۔ نوجوان جانتا ہے کہ جس لڑکی سے وہ شادی کر رہا ہے وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور نوکری کے لالچ میں اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اور ماڈل ٹاون میں بس جاتا ہے۔ ایک روزاس نوجوان کی اس شخص سے ملاقات دوران سفر بس میں ہو جاتی ہے۔ وہ شخص آئندہ بھی اس سے ملاقات کا وعدہ کرتا ہے لیکن پھر کبھی ملاقات نہیں ہوتی۔ وہ نوجوان ہمیشہ اپنی بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آگے کا حال جاننے کے لیے کہانی کو پڑھنا ہوگا۔
قاضی عبد الستار
منگل اشٹکا
یہ ایک برہمچاری پنڈت کی داستان ہے جسے اپنے برہمچریہ پر ناز ہے ساتھ ہی اس کا جیون ساتھی نہ ہونے کا دکھ بھی ہے۔ اپنے ایک ججمان کی شادی کی رسم ادا کراتے ہوئے اپنی تنہائی کا احساس ہوتا ہے اور اس کی طبیعت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ اپنی دیکھ بھال کے لیے اپنی بھابھی کو خط لکھتا ہے مگر بھابھی دھان کی کٹائی میں مصروف ہونے کے باعث اس کی عیادت کو نہیں آ پاتی ہے۔ پنڈت کا ایک عزیز پنڈت سے اپنی بیوی کی تعریف کرتا ہے اور بیوی ہونے کے فائدے کے بارے میں بتاتا ہے اور پنڈت کو شادی کرنے کی صلاح دیتا ہے جسے پنڈت قبول کر لیتا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
وقار محل کا سایہ
وقار محل کے معرفت ایک گھر اور اس میں رہنے والے لوگوں کے ٹوٹتے بنتے رشتوں کی داستان کو بیان کیا گیا ہے۔ وقار محل کالونی کے وسط میں واقع ہے۔ ہر کالونی والا اس سے نفرت بھی کرتا ہے اور ایک طرح سے اس پر فخر بھی۔ مگر وقار محل کو پچھلے کئی سالوں سے گرایا جا رہا ہے اور وہ اب بھی ویسے کا ویسا کھڑا ہے۔ مزدور دن رات کام میں لگے ٹھک ٹھک کرتے رہتے ہیں۔ ان کی ٹھک ٹھک کی اس آواز سے ماڈرن خیال کی ماڈرن لڑکی زفی کے بدن میں سہرن سی ہونے لگتی ہے۔ اور یہی سہرن اسے کئی لوگوں کے پاس لے جاتی ہے اور ان سے دور بھی کرتی ہے۔
ممتاز مفتی
گرم لہو میں غلطاں
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو ایک قتل کا گواہ تھا۔ اس نے شادی میں جب پہلی بار اس عورت کو دیکھا تھا تو وہ اسے پہچان نہیں سکا تھا، غور سے دیکھنے پر اسے یاد آیا کہ وہ عورت ایک بار ان کے گھر آئی تھی۔ تنہائی میں اس نے بڑے بھائی سے بات کی تھی اور پھر رات کے اندھیرے میں بڑے بھائی نے ایک بیگ کو ٹھکانے لگانے کے لیے کچھ لوگوں کو دیا تھا، اس بیگ میں لاش تھی۔ اس نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا مگر چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکا تھا۔
قاضی عبد الستار
جنازہ
یہ مسجد کے ایک موذن کی کہانی ہے جسکا قیام مسجد میں ہی رہتا ہے۔ ایک روز مسجد میں نماز جنازہ کے لیے ایک جنازہ لایا جاتا ہے کہ اسی وقت تیز بارش ہونے لگتی ہے۔ لوگ جنازے کو اس کی تحویل میں دے کر چلے گیے کہ بارش کھلنے پر جنازہ کو دفن کیا جائے گا۔ رات کو جنازے کے پاس تنہا بیٹھے موذن کے سامنے ایک ایسا واقعہ پیش آیا کہ صبح ہوتے ہی اس کی بھی موت ہو گئی۔
حجاب امتیاز علی
ایوا لانش
جہیز کی لعنت پر لکھا گیا افسانہ ہے۔ کہانی کا راوی ایک واش لائن انسپکٹر ہے، معاشی قلت کی وجہ سے اس کی دو بیٹیوں کے رشتے طے نہیں ہو پا رہے ہیں۔ راوی کے کنبہ میں چھ لوگ ہیں، جن کی ذمہ داریوں کا بوجھ اس کے کاندھے پر ہے۔ جہیز پورا کرنے کے لئے وہ رشوتیں بھی لیتا ہے لیکن پھر بھی لڑکے والوں کی فرمائشیں پوری ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ راوی غم سے نجات پانے کے لئے اخبار میں پناہ لیتا ہے۔ ایک دن اس نے پڑھا کہ ایوالانش آجانے کی وجہ سے ایک پارٹی دب کر رہ گئی۔ اسی دوران رشوت کے الزام میں راوی برطرف کر دیا جاتا ہے۔ اسی دن اس کی چھوٹی بیٹی دوڑتی ہوئی آتی ہے اور بتاتی ہے ایک رسیکیو پارٹی نے سب لوگوں کو بچا لیا۔ راوی اپنی بیٹی سے پوچھتا ہے: کیا کوئی ریسکیو پارٹی آئے گی۔۔۔ رقو۔۔۔ کیا وہ ہمیشہ آتی ہے؟
راجندر سنگھ بیدی
نازو
کہانی ایک ایسے شخص کی ہے جو صحنچی نہ ملنے کی وجہ سے اپنی بیوی نازو کو طلاق دے دیتا ہے۔ حالانکہ اس نے شادی ہی اسلیے کی تھی کہ وہ بہت خوبصورت تھی اور اسے لگتا تھا کہ اسی کے پاس صحنچی ہے، مگر اس کے جانے کے بعد جب اس نے پرانے صندوق کو کھلوا کر دیکھا تو صحنچی اسی صندوق میں سے بر آمد ہوئی ۔
قاضی عبد الستار
کنول
’’ایک برہمن لڑکی کی کہانی ہے، جسے ایک مسلم لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے۔ چونکہ لڑکا الگ مذہب اور ذات کا تھا اسلیے لڑکی اس سے شادی کرنے سے انکار تو کر دیتی ہے لیکن وہ ایک پل کے لیے بھی اسے بھول نہیں پاتی۔ اس لڑکی کی شادی کہیں اور ہو جاتی ہے تو وہ اپنے شوہر کو بھی اپنی اس محبت کے بارے میں سچ سچ بتا دیتی ہے۔ یہ سچائی جان کر اس کے شوہر کی اس صدمے سے موت ہو جاتی ہے اور وہ لڑکی اپنے عاشق کے پاس لوٹ جاتی ہے۔‘‘
اعظم کریوی
مجو بھیا
افسانہ ایک ایسے شخص کی داستان بیان کرتا ہے جس کا باپ پنڈت آنند سہائے تعلقدار کا نوکر تھا۔ اکلوتا ہونے کے باوجود باپ اسے رعب داب میں رکھتا تھا۔ باپ کے مرتے ہی اس کے پر نکل آئے اور وہ پہلوانی کے دنگل میں کود پڑا۔ پہلوانی سے نکلا تو گاؤں کی سیاست نے اسے گلے لگایا اور اس میں اس نے ایسے ایسے معرکے سر کیے کہ اپنی ایک الگ پہچان بنالی اور ساتھ ہی دوست و دشمن بھی، جنھیں ایک ایک کرکے اپنے راستے سے ہٹاتا چلا گیا۔
قاضی عبد الستار
محبت کی یادگار
’’ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے، جسے گاؤں کے زمیندار کے بیٹے سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکا جب بنارس میں پڑھنے جاتا ہے تو وہ وہاں سے اس کے لیے ایک تحفہ لاتا ہے، جسے وہ اپنے گلے میں پہن لیتی ہے۔ جب لڑکی کی شادی کسی اور کے ساتھ ہو جاتی ہے تب بھی وہ اس یادگار کو اپنے گلے سے نہیں اتارتی۔ اس یادگار نشان کی حسد میں اس کے شوہر کی موت ہو جاتی ہے۔‘‘