اوور کوٹ
ایک خوبرو نوجوان سردیوں میں مال روڈ کی سڑکوں پر ٹہل رہاہے۔ جس قدر وہ خوبصورت ہے اتنا ہی اس کا اورکوٹ بھی اورکوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے وہ سڑکوں پر ٹہل رہا ہے اور ایک کے بعد دوسری دکانوں پر جاتا ہے۔ اچانک ایک لاری اسے ٹکر مار کر چلی جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے اسپتال لے جاتے ہیں۔ اسپتال میں علاج کے دوران جب نرسیں اس کے کپڑے اتارتی ہیں تو اورکوٹ کے اندر کے اس نوجوان کا حال دیکھ کر حیران رہ جاتی ہیں۔
غلام عباس
بدصورتی
اس افسانہ میں دو بہنوں، حامدہ اور ساجدہ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ ساجدہ بہت خوبصورت ہے، جبکہ حامدہ بہت بدصورت۔ ساجدہ کو ایک لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے، تو حامدہ کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس بات کو لے کر ان دونوں کے درمیان جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ پھر دونوں بہنیں صلح کر لیتی ہے اور ساجدہ کی شادی حامد سے ہو جاتی ہے۔ ایک سال بعد ساجدہ اپنے شوہر کے ساتھ حامدہ سے ملنے آتی ہے۔ رات کو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ صبح ہوتے ہی حامد ساجدہ کو طلاق دے دیتا ہے اور کچھ عرصہ بعد حامدہ سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ایکٹریس کی آنکھ
یہ نیم مزاحیہ افسانہ ہے۔ دیوی نام کی ایکٹریس جو خوبصورت تو نہیں ہے لیکن بہت پرکشش ہے۔ ایک مرتبہ وہ آنکھ میں غبار پڑ جانے کی وجہ سے ڈرامائی انداز میں چلاتی ہے۔ اس کی ہائے ہائے سے سیٹ پر موجود ہر شخص غبار نکالنے کی اپنی سی کوشش کرتا ہے لیکن ناکام رہتا ہے۔ ایک صاحب باہر سے آتے ہیں اور نکالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ افاقہ ہوتے ہی ایکٹریس تمام لوگوں کو نظر انداز کر کے سیٹھ کے پاس چلی جاتی ہے اور سب للچائی نظروں سے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
یہ کہانی مغربی جرمنی میں جا رہی ایک ٹرین سے شروع ہوتی ہے۔ ٹرین میں پانچ لوگ سفر کر رہے ہیں جن میں ایک پروفیسر اور اس کی بیٹی، ایک کناڈا کی لڑکی اور ایک ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی ہیں۔ شروع میں سب خاموش بیٹھے رہتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپس میں بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ دوران گفتگو کینیڈین لڑکی ایرانی پروفیسر سے متاثر ہوتی ہے اور اسے پسند کرنے لگتی ہے۔ ٹرین کا سفر ختم ہونے کے بعد بھی وہ آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ایک ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ چاروں طرف جنگ کا ماحول ہے، ایران میں تحریکیں زوروں پر ہیں کہ ایرپورٹ پر دھماکہ ہوتا ہے۔ اس بم دھماکے میں ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی مارے جاتے ہیں۔ اس حادثے کا کینیڈین لڑکی کے ذہن پر جو اثر پڑتا ہے، کہانی کا انجام ہے۔
قرۃالعین حیدر
تین موٹی عورتیں
طبقۂ اشرافیہ کی عورتوں کی دلچسپیوں، ان کے مشاغل اور ان کی مصروفیات کا عمدہ تذکرہ پر مبنی عمدہ کہانی ہے۔ اس کہانی میں تین ایسی عورتیں ایک ساتھ جمع ہیں جن کی باہمی دوستی کی وجہ صرف ان کا موٹاپا ہے۔ وہ سال میں ایک مہینے کے لیے موٹاپا کم کرنے کی غرض سے کربساد جاتی ہیں لیکن وہاں بھی وہ ایک دوسرے کی حرص میں مرغن غذاؤں سے پرہیز نہیں کرتیں اور برسہا برس گزر جانے کے بعد بھی ان کے موٹاپے میں کوئی فرق نہیں آتا۔
سعادت حسن منٹو
ڈاکٹر شروڈکر
’’یہ بمبئی کے ایک لیڈیز سپیشلسٹ ڈاکٹر کی زندگی پر مبنی افسانہ ہے۔ دو منزلوں میں بنا یہ اسپتال بمبئی کا سب سے مشہور اسپتال ہے۔ اس اسپتال میں ہر چیز نمبر ون کوالٹی کی ہے۔ اسپتال کو وقف ڈاکٹر ایک طرح سے اپنی زندگی کو بھول ہی گیا ہے۔ اس کے پاس اتنا بھی وقت نہیں ہوتا کہ وہ ٹھیک سے سو بھی سکے۔ اسپتال کی نرسیں اس کی تنہا زندگی کو دیکھ کر پریشان رہتی ہیں۔ تبھی اسپتال میں ایک لڑکی ایبارشن کروانے آتی ہے۔ وہ ڈاکٹر کو اس قدر پسند آ جاتی ہے کہ ڈاکٹر اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
شانتی
اس کہانی کا موضوع ایک طوائف ہے۔ کالج کے دنوں میں وہ ایک نوجوان سے محبت کرتی تھی۔ جس کے ساتھ وہ گھر سے بھاگ آئی تھی۔ مگر اس نوجوان نے اسے دھوکہ دیا اور وہ دھندا کرنے لگی تھی۔ بمبئی میں ایک روز اس کے پاس ایک ایسا گراہک آتا ہے، جسے اس کے جسم سے زیادہ اس کی کہانی میں دلچسپی ہوتی ہے۔ پھر جیسے جیسے شانتی کی کہانی آگے بڑھتی ہے وہ شخص اس میں ڈوبتا جاتا ہے اور آخر میں شانتی سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
ستاروں سے آگے
کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ طلبا کے ایک گروپ کی کہانی جو رات کی تاریکی میں گاؤں کے لیے سفر کر رہا ہوتا ہے۔ سبھی ایک بیل گاڑی میں سوار ہیں اور گروپ کا ایک ساتھی ماہیا گا رہا ہے دوسرے اسے غور سے سن رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں کوئی ٹوک دیتا ہے اور تیسرا اس کا جواب دینے لگتا ہے۔ دیا گیا جواب فقط ایک جواب نہیں ہے بلکہ انکے احساسات بھی اس میں شامل ہیں۔
قرۃالعین حیدر
فوٹوگرافر
شمال مشرق کے ایک پرسکون قصبے میں واقع ایک ڈاک بنگلے کے فوٹوگرافر کی کہانی۔ ڈاک بنگلے میں گاہے ماہے ٹورسٹ آتے ہیں، جن سے کام پانے کی غرض سے اس نے ڈاک بنگلے کے مالی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ انھیں ٹورسٹوں میں ایک شام ایک نوجوان جوڑا ڈاک بنگلے میں آتا ہے۔ نوجوان موسیقار ہے اور لڑکی رقاصہ۔ دونوں بےحد خوش ہیں اور اگلے دن باہر گھومنے جاتے وقت وہ فوٹوگرافر سے فوٹو بھی کھینچواتے ہیں، لیکن لڑکی فوٹو ساتھ لے جانا بھول جاتی ہے۔ پندرہ سال بعد اتفاق سے لڑکی پھر اسی ڈاک بنگلے میں آتی ہے اور فوٹو گرافر کو وہاں پا کر حیران ہوتی ہے۔ فوٹو گرافر بھی اسے پہچان لیتا ہے اور اسکے ساتھی کے بارے میں پوچھتا ہے۔ ساتھی جو زندگی کی رفتار میں کہیں کھو گیا اور اسے کھوئے ہوئے مدت ہو گئی ہے۔
قرۃالعین حیدر
رتی، ماشہ، تولہ
یہ ایک رومانی کہانی ہے۔ جمال نام کے لڑکے کو ایک لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ لڑکی بھی اس سے محبت کرتی ہے، لیکن اس کی محبت بہت نپی تلی ہوتی ہے۔ اس کا سبب اس کی زندگی کا معمول (ٹائم ٹیبل) ہوتا ہے، جسکے مطابق وہ ہر کام وقت پر اور نپے تلے انداز میں کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ دوسرے کاموں کی طرح ہی وہ محبت کو بھی وقت اور اس کے کئے جانے کی مقدار میں کرنے پر ہی راضی ہوتی ہے۔ لیکن جب جمال اس سے اپنی جیسی چاہت کی مانگ کرتا ہے، تو ان کی شادی طلاق کے لیے کورٹ تک پہنچ جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
ایک ایسے شخص کی کہانی جو محبت تو کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر پاتا۔ پڑوسی ہونے کے باوجود وہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتا تھا، اس کے والد کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہونے کے باوجود وہ ان لوگوں سے ملنے آتا رہا۔ گھر والے سوچتے رہے کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی سے محبت کرتا ہے مگر وہ تو بڑی بیٹی سے محبت کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ وہ اسے ایک بار ڈارلنگ کہہ سکے۔
قرۃالعین حیدر
مسٹر معین الدین
’’سماجی رسوخ اور ساکھ کے گرد گھومتی یہ کہانی معین نامی ایک شخص کی شادی شدہ زندگی پر مبنی ہے۔ معین نے زہرہ سے اس کے ماں باپ کے خلاف جاکر شادی کی تھی اور پھر کراچی میں آ ن بسا تھا۔ کراچی میں اس کی بیوی کا ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ معین کو یہ بات معلوم ہے۔ لیکن اپنی محبت اور معاشرتی ذمہ داری کا پاس رکھنے کے لیے وہ بیوی کو طلاق نہیں دیتا اور اسے اس کے عاشق کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب عاشق کی موت ہو جاتی ہے تو معین اسے طلاق دے دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
کتے کی دعا
یہ افسانہ ایک کتے کی اپنے مالک کے لیے وفاداری کی ایک انوکھی داستان بیان کرتا ہے۔ اس شخص نے اپنی اور اپنے کتےگولڈی کی کہانی سناتے ہوئے بیتی زندگی کے کئی واقعات کا ذکر کیا۔ ان واقعات میں ان دونوں کے آپسی تعلقات اور ایک دوسرے کے لیے لگاؤ کے بارے میں کئی نصیحت آمیز قصے تھے۔ مگر حقیقی کہانی تو یہ تھی کہ جب ایک بارکتے کا مالک بیمار پڑا تو کتے نے اس کے لیے ایسی دعا مانگی کہ مالک تو ٹھیک ہو گیا، لیکن کتا اپنی جان سے جاتا رہا۔
سعادت حسن منٹو
سودا بیچنے والی
جمیل اور سہیل نام کے دو دوستوں کی کہانی۔ جمیل کو ایک پارٹی میں جمیلہ نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ سہیل کو جمیلہ پسند نہیں آتی، پر وہ اپنے دوست کی خوشی کی خاطر مان جاتا ہے۔ ادھر جمیلہ کی بڑی بہن حمیدہ بھی جمیل سے محبت کرتی ہے۔ ایک روز جمیل جمیلہ کو اس کے گھر سے بھگا کر سہیل کے یہاں چھوڑ جاتا ہے۔ اس کے پیچھے سہیل جمیلہ سے شادی کر لیتا ہے۔ وہاں سے مایوس ہونے پر جمیل حمیدہ سے شادی کر لیتا ہے۔ ایک روز جب وہ ایک پارک میں جمیلہ کو دیکھتا ہے تو وہ اسے کوئی سودا بیچنے والی کی طرح نظر آتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
حج اکبر
’’کہانی صغیر نام کے ایک ایسے شخص کی ہے، جسے ایک شادی میں امتیاز نام کی لڑکی سے محبت ہو جاتی ہے۔ اس کی محبت میں وہ کچھ اس قدر گرفتار ہوتا ہے کہ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر شادی کے بعد بھی ان کے درمیان مرد عورت کے رشتے قایم نہیں ہو پاتے، کیونکہ صغیر اپنی چاہت کے سبب امتیاز کو ایک بہت پاک شے سمجھنے لگتا ہے۔ ایک روز صغیر کے گھر اس کا بڑا بھائی اکبر ملنے آتا ہے۔ اس کے واپس جانے سے پہلے ہی صغیر امتیاز کی زندگی سے ہمیشہ کے لیے نکل جاتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
لتیکا رانی
ایک معمولی خدوخال کی لڑکی کے سلور سکرین پر ابھرنے اور پھر ڈوب جانے کے المیے پر مبنی کہانی ہے۔ لتیکا رانی معمولی سی شکل صورت کی لڑکی تھی۔ اسے ایک مدراسی مرد سے محبت تھی۔ لندن قیام کے دوران اس کی زندگی میں ایک بنگالی بابو داخل ہوتا ہے ۔ بنگالی بابو نے لتیکا رانی کو کچھ اس طرح بدلا کی وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستانی سنیما کی مقبول ترین ہیروئن بن گئی۔ پھر اچانک ہی اس کی زندگی میں کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں کہ اس کا سب کچھ بدل گیا۔
سعادت حسن منٹو
روغنی پتلے
’’قوم پرستی جیسے مدعے پر بات کرتی کہانی، جو شاپنگ آرکیڈ میں رکھے رنگین بتوں کے گرد گھومتی ہے۔ جن کے آس پاس سارا دن طرح طرح کے فیشن پرست لوگ اور نوجوان لڑکے لڑکیاں گھومتے رہتے ہیں۔ مگر رات ہوتے ہی وہ بت آپس میں گفتگو کرتے ہوئے موجودہ حالات پر اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں۔ صبح میں آرکیڈ کا مالک آتا ہے اور وہ کاریگروں کو پورے شاپنگ سینٹر اور تمام بتوں کو پاکستانی رنگ میں رنگنے کا حکم سناتا ہے۔‘‘
ممتاز مفتی
مسز ڈی کوسٹا
یہ ایک ایسی عیسائی عورت کی کہانی ہے، جسے اپنی پڑوسن کے حمل سے بہت زیادہ دلچسپی ہے۔ حاملہ پڑوسن کے دن پورے ہو چکے ہیں، پر بچہ ہے کہ پیدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ مسز ڈکوسٹا ہر روز اس سے بچہ کی پیدائش کے بارے میں پوچھتی ہے۔ ساتھ ہی اسے پورے محلے کی خبریں بھی بتاتی جاتی ہے۔ ان دنوں دیش میں شراب بندی قانون کی مانگ بڑھتی جا رہی تھی، جس کی وجہ سے مسز ڈکوسٹا بہت پریشان تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی حاملہ پڑوسن کا بہت خیال کرتی ہے۔ ایک دن اس نے پڑوسن کو گھر بلایا اور اس کا پیٹ دیکھ کر بتایا کہ بچہ کتنے دنوں میں اور کیا (لڑکا یا لڑکی) پیدا ہوگا۔
سعادت حسن منٹو
مائی جنتے
اس کہانی میں گھر میں کام کرنے والی ایک آیا کا مالکوں کا اعتماد حاصل کرنے، ان کی خیر خواہ بننے اور پھر اس اعتماد کا غلط استعمال کرنے کے دوہرے کردار کی عکاسی کی گئی ہے۔ خواجہ کریم بخش کی موت کے بعد ان کی بیوہ حمیدہ نے اپنی دو بیٹیوں کی ساری ذمہ داری مائی جنتے کو دے دی تھی۔ وہی لڑکیوں کے سارے کام کیا کرتی تھی۔ انہیں کالج لے جاتی اور لاتی ۔ ان میں سے جب ایک لڑکی کی شادی ہوئی تو نکاح کے بعد پتہ چلا کہ وہ ان کی لڑکیوں سے دھندا بھی کرواتی تھی۔
سعادت حسن منٹو
پرانی شراب نئی بوتل
’’یہ ایسی لڑکی کی کہانی ہے جو ماڈرن خیالات کی ہے۔ اس کے کئی افیئر رہے ہیں۔ مگر کچھ عرصہ چلنے کے بعد سب ٹوٹ گئے ہیں، کیونکہ وہ محبت کو وعدوں، ارادوں سے زیادہ جسمانی طورپر توجہ دیتی ہے۔ ایم جی کے ساتھ اسکا افیئر بھی اسی وجہ سے ٹوٹا تھا، جس کے ساتھ بعد میں اس کی سہیلی سفو نے شادی کر لی تھی۔‘‘
ممتاز مفتی
اولڈ ایج ہوم
آرام و سکون کا طالب ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو سوچتا تھا کہ سبکدوشی کے بعد اطمینان سے گھر میں رہیگا، مزے سے اپنی پسند کی کتابیں پڑھےگا لیکن ساتھ رہ رہے دیگر افراد خانہ کے علاوہ اپنے پوتے پوتیوں کے شور غل سے اسے اوب ہونے لگی اور وہ گھر چھوڑ کر اولڈ ایج ہوم رہنے چلا جاتا ہے۔ وہاں اپنے سے پہلے رہ رہے ایک شخص کا ایک خط اسے ملتا ہے جس میں وہ اپنے بچوں کو یاد کر کے روتا ہے۔ اس خط کو پڑھ کر اسے اپنے بچوں کی یاد آتی ہے اور وہ واپس گھر لوٹ جاتا ہے۔
مرزا ادیب
فاصلے
ایک ایسے بوڑھے شخص کی کہانی جو ریٹائرمنٹ کے بعد گھر میں تنہا رہتے ہوئے بور ہو گیا ہے اور سکون کی تلاش میں ہے۔ ایک دن وہ گھر سے باہر نکلا تو گلی میں کھیلتے بچوں کو دیکھ کر اور سامان بیچتے دوکاندار سے بات کرنا اسے اچھا لگا۔ اس طرح وہ وہاں روز آنے لگا اور اپنا وقت گزارنے لگا۔ ایک دن انگلینڈ سے واپس آیا بیٹا اسے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ کافی وقت کے بعد جب وہ واپس آتا ہے اور پھر سے اپنی گلی میں نکلتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے لیے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آگئی ہے، شاید وہ ان کے لیے ایک اجنبی بن چکا تھا۔
مرزا ادیب
ماڈل ٹاؤن
حسد کی آگ میں جلتے ایک نوجوان کی کہانی۔ نوجوان جانتا ہے کہ جس لڑکی سے وہ شادی کر رہا ہے وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے اور نوکری کے لالچ میں اس لڑکی سے شادی کر لیتا ہے اور ماڈل ٹاون میں بس جاتا ہے۔ ایک روزاس نوجوان کی اس شخص سے ملاقات دوران سفر بس میں ہو جاتی ہے۔ وہ شخص آئندہ بھی اس سے ملاقات کا وعدہ کرتا ہے لیکن پھر کبھی ملاقات نہیں ہوتی۔ وہ نوجوان ہمیشہ اپنی بیوی کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آگے کا حال جاننے کے لیے کہانی کو پڑھنا ہوگا۔
قاضی عبد الستار
وہ طریقہ تو بتا دو تمہیں چاہیں کیونکر؟
یہ نوجوان محبت کی داستان ہے۔ ایک نوجوان ایک لڑکی سے بے ہناہ محبت کرتا ہے لیکن لڑکی اس کے اظہار محبت کے ہر طریقے کو دقیانوسی، پرانا اور بور کہتی رہتی ہے۔ پھر یکبارگی جب نوجوان اسے دھمکی دیتا ہوا اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے تو لڑکی مان جاتی ہے کہ اس میں محبت کا اظہار کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔