ٹوبہ ٹیک سنگھ
اس افسانہ میں نقل مکانی کے کرب کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جہاں ہر چیز کا تبادلہ ہو رہا تھا وہیں قیدیوں اور پاگلوں کو بھی منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ فضل دین پاگل کو صرف اس بات سے سروکار ہے کہ اسے اس کی جگہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سے جدا نہ کیا جائے۔ وہ جگہ خواہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں۔ جب اسے جبراً وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک ایسی جگہ جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جو نہ ہندوستان کا حصہ ہے اور نہ پاکستان کا اور اسی جگہ پر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ اوندھے منھ گر کر مر جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بانجھ
خود نوشت کے اسلوب میں لکھی گئی کہانی ہے۔ بمبئی کے اپولو بندر پر سیر کرتے ہوئے ایک دن اس شخص سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کے دوران ہی محبت پر گفتگو ہونے لگی ہے۔ آپ چاہے کسی سے بھی محبت کریں، محبت محبت ہی ہوتی ہے، وہ کسی بچے کی طرح پیدا ہوتی ہے اور حمل کی طرح ضائع بھی ہو جاتی ہے، یعنی قبل از پیدائش مر بھی سکتی ہے۔ کچھ لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں جو چاہ کر بھی محبت نہیں کر پاتے ہیں اور شاید ایسے لوگ بانجھ ہوتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
اولاد
یہ اولاد نہ ہونے کے غم میں پاگل ہو گئی ایک عورت کی کہانی ہے۔ زبیدہ کی شادی کے بعد ہی اس کے والد کی موت ہو گئی تو وہ اپنی ماں کو اپنے گھر لے آئی۔ ماں بیٹی ایک ساتھ رہنے لگیں تو ماں کو فکر ہوئی کہ اس کی بیٹی کو ابھی تک بچہ کیوں نہیں ہوا۔ بچہ کے لیے ماں نے بیٹی کا ہر طرح کا علاج کرایا، پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ماں دن رات اسے اولاد نہ ہونے کے طعنے دیتی رہتی ہے تو اس کا دماغ چل جاتا ہے اور ہر طرف اسے بچے ہی نظر آنے لگتے ہیں۔ اس کی اس دیوانگی کو دیکھ کر اس کا شوہر ایک نوزائیدہ کو اس کی گود میں لاکر ڈال دیتا ہے۔ جب اس کے لیے اس کی چھاتیوں سے دودھ نہیں اترتا ہے تو وہ استرے سے اپنی چھاتیوں کو کاٹ ڈالتی ہے جس سے اس کی موت ہو جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
آپا
’’افسانہ ایک ایسی لڑکی کی داستان بیان کرتا ہے جو جلے ہوئے اپلے کی مانند ہے۔ باہر سے راکھ کا ڈھیر مگر اندر چنگاریاں ہیں۔ گھر کے کاموں میں بندھی اسکی زندگی خاموشی سے گزر رہی تھی کہ اسکی پھپو کا بیٹا تصدق انکے یہاں رہنے چلا آیا۔ وہ اسے پسند کرنے لگی اور اسکی فرمائشوں کے مطابق خود کو ڈھالتی چلی گئی۔ مگر جب جیون ساتھی کے انتخاب کی باری آئی تو تصدق نے اسے چھوڑ کر سجو باجی سے شادی کر لی۔‘‘
ممتاز مفتی
بدصورتی
اس افسانہ میں دو بہنوں، حامدہ اور ساجدہ کی کہانی کو بیان کیا گیا ہے۔ ساجدہ بہت خوبصورت ہے، جبکہ حامدہ بہت بدصورت۔ ساجدہ کو ایک لڑکے سے محبت ہو جاتی ہے، تو حامدہ کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ اس بات کو لے کر ان دونوں کے درمیان جھگڑا بھی ہوتا ہے۔ پھر دونوں بہنیں صلح کر لیتی ہے اور ساجدہ کی شادی حامد سے ہو جاتی ہے۔ ایک سال بعد ساجدہ اپنے شوہر کے ساتھ حامدہ سے ملنے آتی ہے۔ رات کو کچھ ایسا ہوتا ہے کہ صبح ہوتے ہی حامد ساجدہ کو طلاق دے دیتا ہے اور کچھ عرصہ بعد حامدہ سے شادی کر لیتا ہے۔
سعادت حسن منٹو
بادشاہت کا خاتمہ
حسن و دلکشی کے خواہش مند ایک ایسے بے روزگار نوجوان کی کہانی ہے جس کی زندگی کا بیشتر حصہ فٹ پاتھ پر رات بسر کرتے ہوئے گزرا تھا۔ اتفاقیہ طور پر وہ ایک دوست کے آفس میں چند دنوں کے لیے ٹھہرتا ہے جہاں ایک لڑکی کا فون آتا ہے اور ان کی گفتگو مسلسل ہونے لگتی ہے۔ موہن کو لڑکی کی آواز سے عشق ہے اس لیے اس نے کبھی اس کا نام پتہ یا فون نمبر جاننے کی زحمت نہیں کی۔ دفتر چھوٹ جانے کی وجہ سے اس کی جو ’بادشاہت‘ ختم ہونے والی تھی اس کا خیال اسے صدمہ میں مبتلا کر دیتا ہے اور ایک دن جب شام کے وقت ٹیلیفون کی گھنٹی بجتی ہے تو اس کے منہ سے خون کے بلبلے پھوٹ رہے ہوتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
اللہ دتا
فساد میں لٹے پٹے ہوئے ایک ایسے گھر کی کہانی ہے جس میں ایک باپ اپنی بیٹی سے منہ کالا کرتا ہے اور پھر اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو بہو بنا کر لاتا ہے تو اس سے بھی زبردستی کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب اس کی بیٹی کو پتہ چلتا ہے تو وہ اپنے بھائی سے طلاق دلوا دیتی ہے کیونکہ وہ اپنی سوت نہیں دیکھ سکتی۔
سعادت حسن منٹو
پریم کہانی
محبت کرنا جتنا ضروری ہے اس کا اظہار بھی اسی قدر ضروری ہے۔ اگر محبت کا اظہار نہیں ہوا تو آپ اپنے ہاتھوں محبت کا قتل کر دیں گے۔ یہ کہانی بھی ایسی ہی ایک محبت کے قتل کی داستان ہے۔ ایک ایسے نوجوان کی کہانی جو کسی لڑکی سے بے پناہ محبت کرتا ہے لیکن اپنی کم ہمتی کے باعث اس لڑکی سے اپنی محبت کا اظہار نہیں کر پاتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی اس سے دور چلی جاتی ہے۔
احمد علی
پشاور سے لاہور تک
جاوید پشاور سے ہی ٹرین کے زنانہ ڈبے میں ایک عورت کو دیکھتا چلا آرہا تھا اور اس کے حسن پر نثار ہو رہا تھا۔ راولپنڈی اسٹیشن کے بعد اس نے راہ و رسم پیدا کی اور پھر لاہور تک پہنچتے پہنچتے اس نے سیکڑوں قسم کے منصوبے ذہن میں ترتیب دے ڈالے۔ لیکن لاہور پہنچ کر جب اسے معلوم ہوا کہ وہ ایک طوائف ہے تو وہ الٹے پاؤں راولپنڈی واپس ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
آوارہ گرد
دنیا کی سیر پر نکلے ایک جرمن لڑکے کی کہانی۔ وہ پاکستان سے ہندوستان آتا ہے اور بمبئی میں ایک سفارشی میزبان کے یہاں قیام کرتا ہے۔ رات کو کھانے کی میز پر وہ اپنے میزبان سے جرمنی، دوسری عالمی جنگ، نازی اور اپنے ماضی کے بارے میں باتیں کرتا ہے۔ ہندوستان سے وہ شری لنکا جاتا ہے، دوران سفر ایک سنگھلی بودھ اس کا دوست بن جاتا ہے۔ وہ دوست اسے ندی میں نہانے کی دعوت دیتا ہے اور خود ڈوب کر مر جاتا ہے۔ لنکا سے ہوتا ہوا وہ سیلانی لڑکا ویتنام جاتا ہے۔ ویتنام میں جنگ جاری ہے اور جنگ کی ایک گولی اس یوروپی آوارہ گرد نوجوان کا خاتمہ کر دیتی ہے۔
قرۃالعین حیدر
کوارنٹین
اس کہانی میں ایک ایسی وبا کے بارے میں بتایا گیا ہے جسکی زد میں پورا علاقہ ہے اور لوگوں کی موت بدستور جاری ہے، ایسے میں علاقےکے ڈاکٹر اور انکے معاون کی خدمات قابل ستائش ہے۔ بیماروں کا علاج کرتے ہوئے انھیں احساس ہوتا ہے کہ لوگ بیماری سے کم کوارنٹین سے زیادہ مر رہے ہیں۔ بیماری سے بچنے کے لیے ڈاکٹر خود کو مریض سے الگ کر رہے ہیں جبکہ انکا معاون بھاگو بھنگی بغیر کسی خوف کے شب و روز بیماروں کی تیمارداری میں لگا ہوا ہے۔ علاقے سے جب وبا ختم ہو جاتی ہے تو عمائدین شہر کی جانب سے ڈاکٹر کے اعزاز میں جلسہ منعقد کیا جاتا ہے اور ڈاکٹر کےخدمات کی تعریف کی جاتی ہے لیکن بھاگو بھنگی کا ذکر تک نہیں ہوتا۔
راجندر سنگھ بیدی
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
یہ کہانی مغربی جرمنی میں جا رہی ایک ٹرین سے شروع ہوتی ہے۔ ٹرین میں پانچ لوگ سفر کر رہے ہیں جن میں ایک پروفیسر اور اس کی بیٹی، ایک کناڈا کی لڑکی اور ایک ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی ہیں۔ شروع میں سب خاموش بیٹھے رہتے ہیں پھر رفتہ رفتہ آپس میں بات چیت شروع ہو جاتی ہے۔ دوران گفتگو کینیڈین لڑکی ایرانی پروفیسر سے متاثر ہوتی ہے اور اسے پسند کرنے لگتی ہے۔ ٹرین کا سفر ختم ہونے کے بعد بھی وہ آپس میں ملتے رہتے ہیں اور ایک ایسے رشتے میں بندھ جاتے ہیں جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ چاروں طرف جنگ کا ماحول ہے، ایران میں تحریکیں زوروں پر ہیں کہ ایرپورٹ پر دھماکہ ہوتا ہے۔ اس بم دھماکے میں ایرانی پروفیسر اور اس کا ساتھی مارے جاتے ہیں۔ اس حادثے کا کینیڈین لڑکی کے ذہن پر جو اثر پڑتا ہے، کہانی کا انجام ہے۔
قرۃالعین حیدر
حسن کی تخلیق
’’یہ ایک ایسے جوڑے کی کہانی ہے، جو اپنے وقت کی سب سے خوبصورت اور ذہین جوڑی تھی۔ دونوں کی محبت کا آغاز کالج کے دنوں میں ہوا تھا۔ پھر پڑھائی کے بعد انہوں نے شادی کر لی۔ اپنی بے مثال خوبصورتی کی بناپر وہ اکثر اپنے ہونے والے بچے کی خوبصورتی کے بارے میں سوچنے لگے۔ ہونے والے بچے کی خوبصورتی کا خیال ان کے ذہن پر کچھ اس طرح حاوی ہو گیا کہ وہ دن رات اسی کے بارے میں باتیں کیا کرتے۔ پھر ان کے یہاں بچہ پیدا بھی ہوا۔ لیکن وہ کوئی عام سا بچہ نہیں تھا بلکہ وہ اپنے آپ میں ایک نمونہ تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
ہارتا چلا گیا
ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جسے جیتنے سے زیادہ ہارنے میں مزہ آتا ہے۔ بینک کی نوکری چھوڑکر فلمی دنیا میں اس نے بے حساب دولت کمائی تھی۔ یہاں اس نے اتنی دولت کمائی کی وہ جس قدر خرچ کرتا اس سے زیادہ کما لیتا۔ ایک روز وہ جوا کھیلنے جا رہا تھا کہ اسے عمارت کے نیچے گاہکوں کو انتظار کرتی ایک ویشیا ملی۔ اس نے اسے دس روپیے روز دینے کا وعدہ کیا، تاکہ وہ اپنا جسم بیچنے کادھندا بند کر سکے۔ کچھ دنوں بعد اس شخص نے دیکھا کہ وہ ویشیا پھر کھڑکی پر بیٹھی گاہک کا انتظار کر رہی ہے۔ پوچھنے پر اس نے ایسا جواب دیا کہ وہ شخص لا جواب ہو کر خاموش ہو گیا۔
سعادت حسن منٹو
رضو باجی
ایک عرصے بعد رض٘و باجی کا خط آتا ہے، وہی رض٘و جو پندرہ سال قبل ہمارے علاقے کا مشہور محرم دیکھنے آئی تھی۔ اسی محرم کے میلے میں ان کی ملاقات کہانی کے ہیرو سے ہوتی ہے اور وہیں ایک ایسا احساس پروان چڑھا کہ رض٘و باجی پھر تا عمر کسی کا نہ ہونے دیا۔ ماں کے جیتے جی کوئی رشتہ قبول نہیں کیا۔ باپ کے لقوہ زدہ ہو جانے پر رضو باجی نے ایک رشتہ قبول کیا لیکن عین نکاح سے قبل ان پر جنات آنے لگے اور وہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا۔ اسکے بعد رض٘و باجی نے کبھی کسی رشتے کے بارے میں سوچنا بھی گوارہ نہ کیا۔ محرم میں ہوئے اس پہلے پیار کو وہ بھول نہیں سکی تھیں۔
قاضی عبد الستار
سراج
’’یہ ایک ایسی نوجوان طوائف کی کہانی ہے، جو کسی بھی گراہک کو خود کو ہاتھ نہیں لگانے دیتی۔ حالانکہ جب اس کا دلال اس کا سودا کسی سے کرتا ہے، تو وہ خوشی خوشی اس کے ساتھ چلی جاتی ہے، لیکن جیسے ہی گراہک اسے کہیں ہاتھ لگاتا ہے کہ اچانک اس سے جھگڑنے لگتی ہے۔ دلال اس کی اس حرکت سے بہت پریشان رہتا ہے، پر وہ اسے خود سے الگ بھی نہیں کر پاتا ہے، کیونکہ وہ اس سے محبت کرنے لگا ہے۔ ایک روز وہ دلال کے ساتھ لاہور چلی جاتی ہے۔ وہاں وہ اس نوجوان سے ملتی ہے، جو اسے گھر سے بھگا کر ایک سرائے میں تنہا چھوڑ گیا تھا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
موم بتی کے آنسو
یہ غربت کی زندگی گزارتی ایک ایسی ویشیا کی کہانی ہے جس کے گھر میں اندھیرا ہے۔ طاق میں رکھی موم بتی موم کے آنسو بہاتی ہوئی جل رہی ہے۔ اس کی چھوٹی بچی موتیوں کا ہار مانگتی ہے تو وہ فرش پر جمے موم کو دھاگے میں پرو کر مالا بناکر اس کے گلے میں پہنا دیتی ہے۔ رات میں اس کا گاہک آتا ہے۔ اس سے الگ ہونے پر وہ تھک جاتی ہے، تبھی اسے اپنی بچی کا خیال آتا ہے اور وہ اس کے چھوٹے پلنگ کے پاس جاکر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
خودکشی
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس کے یہاں شادی کے بعد بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ لاکھ کوششوں کے بعد بھی وہ اس بچی کا کوئی اچھا سا نام نہیں سوچ پاتا ہے۔ نام کی تلاش کے لیے وہ ڈکشنری خریدتا ہے، جب تک ڈکشنری لیکر وہ گھر پہنچتا ہے تب تک بیٹی کی موت ہو چکی ہوتی ہے۔ بیٹی کے موت کے غم میں کچھ ہی دنوں بعد اس کی بیوی کی بھی موت ہو جاتی ہے۔ زندگی کے دیے، ان صدموں سے تنگ آکر وہ خودکشی کرنے کی سوچتا ہے۔ اس غرض سے وہ ریلوے لائن پر جاتا ہے مگر وہاں پہلے سے ہی ایک دوسرا شخص لائن پر لیٹا ہوتا ہے۔ سامنے سے آ رہی ٹرین کو دیکھ کر وہ اس شخص کو بچا لیتا ہے اور اس سے ایسی باتیں کہتا ہے کہ ان باتوں سے اس کی خود کی زندگی پوری طرح بدل جاتی ہے۔
سعادت حسن منٹو
مہاوٹوں کی ایک رات
مہاوٹوں کی رات ہے اور زبردست بارش ہو رہی ہے۔ ایک غریب کنبہ جس میں تین چھوٹے بچے بھی شامل ہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹے سکڑے لیٹے ہوئے ہیں۔ گھر کی چھت ٹپک رہی ہے، انھیں ٹھنڈ لگ رہی ہے اور وہ بھوک سے بدحال ہیں۔ بچوں کی ماں اپنے پرانے دنوں کو یاد کرتی ہے اور سوچتی ہے کہ شاید وہ جنت میں ہے۔ جب بچے باربار اس سے کھانے کے لیے کہتے ہیں تو وہ اس کے بارے میں سوچتی اور کہتی ہے اگر وہ ہوتا تو کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ لاتا۔
احمد علی
مس اڈنا جیکسن
یہ ایک کالج کی ایسی معمر پرنسپل کی کہانی ہے، جس نے اپنی طالبہ کے دوست سے ہی شادی کر لی تھی۔ جب وہ کالج میں آئی تو طالبات نے اسے بالکل منہ نہیں لگایا تھا۔ حالانکہ اپنے اخلاق اور خلوص کی وجہ سے وہ جلدی ہی اپنی طالبات کے درمیان مقبول ہو گئی تھی۔ اسی اثنا اسے ایک لڑکی کی محبت کے بارے میں پتہ چلا، جو ایک لیکچرر سے پیار کرتی تھی۔ لڑکی کی پوری داستان سننے کے بعد پرنسپل نے لیکچرر کو اپنے گھر بلایا اور خود سے آدھی عمر کے اس نوجوان لیکچرر کے ساتھ شادی کر لی۔
سعادت حسن منٹو
شاداں
امیر گھروں میں کام کرنے والی غریب، مظلوم اور کمسن لڑکیوں کی اس گھر کے مردوں کے ذریعہ ہونے والی جنسی استحصال کی کہانی ہے۔ خان بہادر محمد اسلم خان بہت مطمئن اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے تین بچے تھے، جو اسکول کے بعد سارا دن گھر میں شور غل مچاتے رہتے تھے۔ انہیں دنوں ایک عیسائی لڑکی شاداں ان کے گھر میں کام کرنے آنے لگی۔ وہ بھی بچی تھی، لیکن اچانک ہی اس میں جوانی کے رنگ ڈھنگ دکھنے لگے۔ ایک روز خان صاحب کو شاداں کے زنا کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ شاداں تو اسی روز مر گئی تھی اور خان صاحب بھی ثبوت نہ ہونے کی بنا پر بری ہو گئے تھے۔
سعادت حسن منٹو
سنا ہے عالم بالا میں کوئی کیمیا گر تھا
ایک ایسے شخص کی کہانی جو محبت تو کرتا ہے لیکن اس کے اظہار کی ہمت نہیں کر پاتا۔ پڑوسی ہونے کے باوجود وہ اس گھر کے ایک فرد کی طرح رہتا تھا، اس کے والد کی پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہونے کے باوجود وہ ان لوگوں سے ملنے آتا رہا۔ گھر والے سوچتے رہے کہ وہ ان کی چھوٹی بیٹی سے محبت کرتا ہے مگر وہ تو بڑی بیٹی سے محبت کرتا تھا، اس کی خواہش تھی کہ وہ اسے ایک بار ڈارلنگ کہہ سکے۔
قرۃالعین حیدر
مسٹر معین الدین
’’سماجی رسوخ اور ساکھ کے گرد گھومتی یہ کہانی معین نامی ایک شخص کی شادی شدہ زندگی پر مبنی ہے۔ معین نے زہرہ سے اس کے ماں باپ کے خلاف جاکر شادی کی تھی اور پھر کراچی میں آ ن بسا تھا۔ کراچی میں اس کی بیوی کا ایک ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ تعلقات قائم ہو جاتے ہیں۔ معین کو یہ بات معلوم ہے۔ لیکن اپنی محبت اور معاشرتی ذمہ داری کا پاس رکھنے کے لیے وہ بیوی کو طلاق نہیں دیتا اور اسے اس کے عاشق کے ساتھ رہنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب عاشق کی موت ہو جاتی ہے تو معین اسے طلاق دے دیتا ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
میرا ہم سفر
’’علیگڑھ سے امرتسر لوٹتے ہوئے ایک ایسے طالب علم کی کہانی ہے جو ٹرین میں سوار ہوا تو اسے الوداع کہنے آئے اس کے ایک ساتھی نے اس سے کوئی ایسی بات کہی کہ اس نے اسے پاگل کہہ کر جھٹک دیا۔ ٹرین میں اس کے ساتھ سفر کر رہے نوجوان نے سوچا کہ وہ اسے پاگل کہہ رہا ہے۔ بات کرنے پر پتہ چلا کہ وہ نوجوان اپنے گھر سے صرف اس لیے نکل آیا ہے کیونکہ اس کا یہودی باپ اسے پاگل کہتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی بیوی بھی اسے چھوڑکر اپنے مائکے چلی جاتی ہے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
رحمن کے جوتے
جوتے کے اوپر جوتے چڑھ جانے کو سفر سے جوڑ کر توہم پرستی کو بیان کرتی خوبصورت کہانی۔ کھانا کھاتے وقت رحمان کا جوتا دوسرے جوتے پر چڑھا تو اس کی بیوی نے کہا کہ اسے اپنی بیٹی جینا سے ملنے جانا ہے۔ جینا سے ملنے جانےکے لیے اس کی ماں نے بہت سارے ساز و سامان تیار کر رکھے تھے۔ دوران سفر اسکے سامان کی گٹھری کہیں گم ہو جاتی ہے جس کے لیے وہ پولیس کے ایک کانسٹیبل سے الجھ جاتا ہے۔ زخمی حالت میں اسے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے، وہاں بھی اس کا جوتا دوسرے جوتے پر چڑھا ہوا ہے جو اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ اب ایک لمبے سفر پر جانے والا ہے۔
راجندر سنگھ بیدی
ملاوٹ
یہ ایک ایسے ایماندار اور خوش اخلاق شخص کی کہانی ہے جس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو دھوکا نہیں دیا۔ وہ اپنی زندگی سے خوش تھا۔ اس نے اپنی شادی کرنے کا فیصلہ کیا لیکن شادی میں اس کے ساتھ فریب کیا گیا۔ وہ جہاں بھی گیا اس کے ساتھ دھوکا اور فریب ہوتا رہا۔ پھر اس نے بھی لوگوں کو دھوکا دینے کا ارادہ کر لیا۔ آخر میں زندگی سے تنگ آکر اس نے موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیا۔ خودکشی کے لیے اس نے جو زہر خریدا تھا اس میں بھی ملاوٹ تھی، جس کی وجہ سے اس کی وہ حسرت پوری نہ ہو سکی۔
سعادت حسن منٹو
شیدا
’’یہ امرتسر کے ایک مشہور غنڈے کی اپنی غیرت کے لیے ایک پولیس والے کا قتل کر دینے کی کہانی ہے۔ شیدا کا اصول تھا کہ جب بھی لڑو دشمن کے علاقے میں جاکر لڑو۔ وہ لڑائی بھی اس نے پٹرنگوں کے محلے میں جاکر کی تھی، جس کے لیے اسے دو سال کی سزا ہوئی تھی۔ اس لڑائی میں پٹرنگوں کی ایک لڑکی اس پر فدا ہو گئی تھی۔ جیل سے چھوٹنے پر جب وہ اس سے شادی کی تیاری کر رہا تھا تو ایک پولس والے نے اس لڑکی کا ریپ کرکے اس کا خون کر دیا۔ بدلے میں شیدا نے اس پولیس والے کا سر کلہاڑی سے کاٹ کر دھڑ سے الگ کر دیا۔‘‘
سعادت حسن منٹو
نفسیاتی مطالعہ
ایک ایسی ادیبہ کی داستان اس کہانی میں بیان کی گئی ہے جو مردوں کی نفسیات پر لکھنے کے لیے مشہور ہے۔ کچھ ادیب دوست بیٹھے ہو ئے اسی مصنفہ بلقیس کے بارے میں باتیں کر رہے ہیں۔ ادیب جس گھر میں بیٹھے ہیں اس گھر کی خاتون بلقیس کی دوست ہے۔ دوران گفتگو ہی فون آتا ہے اور وہ خاتون بلقیس سے ملنے چلی جاتی ہے۔ بلقیس اسے بتاتی ہے کہ وہ گھر میں سفیدی کر رہے ایک مزدور کی نفسیات کا مطالعہ کر رہی تھی کہ اسی درمیان اس مزدور نے اسے اپنی ہوس کا شکار بنا لیا۔
سعادت حسن منٹو
مائی جنتے
اس کہانی میں گھر میں کام کرنے والی ایک آیا کا مالکوں کا اعتماد حاصل کرنے، ان کی خیر خواہ بننے اور پھر اس اعتماد کا غلط استعمال کرنے کے دوہرے کردار کی عکاسی کی گئی ہے۔ خواجہ کریم بخش کی موت کے بعد ان کی بیوہ حمیدہ نے اپنی دو بیٹیوں کی ساری ذمہ داری مائی جنتے کو دے دی تھی۔ وہی لڑکیوں کے سارے کام کیا کرتی تھی۔ انہیں کالج لے جاتی اور لاتی ۔ ان میں سے جب ایک لڑکی کی شادی ہوئی تو نکاح کے بعد پتہ چلا کہ وہ ان کی لڑکیوں سے دھندا بھی کرواتی تھی۔
سعادت حسن منٹو
شغل
’’یہ کہانی امیروں کے شوق اور ان کی دلچسپیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک پہاڑی علاقے میں کچھ مزدور پتھر صاف کرنے کا کام کیا کرتے تھے۔ وہاں سڑک سے گزر نے والی طرح طرح کی لاریاں ہی ان کے تفریح کا ذریعہ تھیں۔ ایک روز وہاں ایک نئی گاڑی آکر رکی، اس میں سے دو نوجوان اترے اور ایک چمار کی بیٹی کو زبردستی اپنے ساتھ لے کر چل دیے۔ ٹھیکیدار نے ان نوجوانوں کے رسوخ کو بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یہ تو اپنے شوق کے لیے اس لڑکی کو لے جا رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد اسے چھوڑ جا ئینگے۔‘‘
سعادت حسن منٹو
حیاتین-ب
غربت پر مبنی کہانی ہے۔ حیاتین ب کی کمی کی وجہ سے ماتا دین مزدور کی بیوی من بھری کے پٹھوں میں ورم آ جاتا ہے۔ میس کا ایک ملازم اچھی خوراک اور غذا کا وعدہ کرکے ماتا دین اور من بھری کو اپنے یہاں ملازم رکھوا لیتا ہے اور من بھری کا جنسی استحصال کرتا ہے۔ جب ماتا دین کو اس کی خبر ہوتی ہے تو وہ وہاں کی ملازمت چھوڑ دیتا ہے اور ایک دن ڈاکٹر کے یہاں سے حیاتین ب چوری کرنے کی وجہ سے حوالات میں قید ہو جاتا ہے۔ وہ خوش تھا کہ من بھری اب ایک صحتمند بچہ کو جنم دے گی لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ شدت غم سے من بھری کا حمل ساقط ہو گیا ہے۔