کاوش بدری
غزل 18
اشعار 12
اب نہ وہ احباب زندہ ہیں نہ رسم الخط وہاں
روٹھ کر اردو تو دہلی سے دکن میں آ گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
ایک بوسہ ہونٹ پر پھیلا تبسم بن گیا
جو حرارت تھی مری اس کے بدن میں آ گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
سانس لینے بھی نہ پایا تھا کہ منظر گم ہوا
میں کسی قابل نہ تھا ورنہ ٹھہرتا اور کچھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
شاعری میں انفس و آفاق مبہم ہیں ابھی
استعارہ ہی حقیقت میں خدا سا خواب ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
میری آواز کو آواز نے تقسیم کیا
ریڈیو میں ہوں ٹیلیفون کے اندر ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے