طنز پر اشعار
طنز کے ساتھ عموما مزاح
کا لفظ بھی جڑا ہوتا ہے کیونکہ گہرا طنز تبھی قابل برداشت اور ایک معنی میں اصلاحی ہوتا ہے جب اس کا اظہار اس طور کیا جائے کہ اس کے ساتھ مزاح کا عنصر بھی شامل ہو ۔ طنزیہ پیرائے میں ایک تخلیق کار اپنے آس پاس کی دنیا اور سماج کی ناہمواریوں کو نشانہ بناتا ہے اور ایسے پہلوؤں کو بے نقاب کرتا ہے جن پر عام زندگی میں نظر نہیں جاتی اور جاتی بھی ہے تو ان پر بات کرنے کا حوصلہ نہیں ہوتا ۔
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
-
موضوعات : جنتاور 3 مزید
بات تک کرنی نہ آتی تھی تمہیں
یہ ہمارے سامنے کی بات ہے
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے ہوئے نوکر ہوئے پنشن ملی پھر مر گئے
-
موضوع : مشہور اشعار
رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں
چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو
-
موضوع : مشہور اشعار
مے بھی ہوٹل میں پیو چندہ بھی دو مسجد میں
شیخ بھی خوش رہیں شیطان بھی بے زار نہ ہو
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبرؔ نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
لیڈروں کی دھوم ہے اور فالوور کوئی نہیں
سب تو جنرل ہیں یہاں آخر سپاہی کون ہے
دل خوش ہوا ہے مسجد ویراں کو دیکھ کر
میری طرح خدا کا بھی خانہ خراب ہے
تشریح
اس شعر میں شاعر نے خدا سے چھیڑ کی ہے جو اردو غزل کی روایت میں شامل ہے۔ شاعر اللہ پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تمہارے بندوں نے تمہاری بندگی چھوڑ دی ہے جس کی وجہ سے مسجد ویران ہوگئی ہے۔ چونکہ تم نے میری تقدیر میں خانہ خرابی لکھی تھی تو اب تمہارا خانہ خراب دیکھ کر میرا دل خوش ہوا ہے۔
شفق سوپوری
شیخ اپنی رگ کو کیا کریں ریشے کو کیا کریں
مذہب کے جھگڑے چھوڑیں تو پیشے کو کیا کریں
سنا یہ ہے بنا کرتے ہیں جوڑے آسمانوں پر
تو یہ سمجھیں کہ ہر بیوی بلائے آسمانی ہے
سنے گا کون میری چاک دامانی کا افسانہ
یہاں سب اپنے اپنے پیرہن کی بات کرتے ہیں
عاشقی کا ہو برا اس نے بگاڑے سارے کام
ہم تو اے.بی میں رہے اغیار بے.اے. ہو گئے
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
اٹھتے ہوؤں کو سب نے سہارا دیا کلیمؔ
گرتے ہوئے غریب سنبھالے کہاں گئے
مرعوب ہو گئے ہیں ولایت سے شیخ جی
اب صرف منع کرتے ہیں دیسی شراب کو
پی لیں گے ذرا شیخ تو کچھ گرم رہیں گے
ٹھنڈا نہ کہیں کر دیں یہ جنت کی ہوائیں
ملی ہے دختر رز لڑ جھگڑ کے قاضی سے
جہاد کر کے جو عورت ملے حرام نہیں
ہجو نے تو ترا اے شیخ بھرم کھول دیا
تو تو مسجد میں ہے نیت تری مے خانے میں
کہتی ہے اے ریاضؔ درازی یہ ریش کی
ٹٹی کی آڑ میں ہے مزا کچھ شکار کا